ایس اوپیز پر عمل نہ ہونے کے باعث کیسز کی شرح میں اضافہ ہوا۔فائل فوٹو
ایس اوپیز پر عمل نہ ہونے کے باعث کیسز کی شرح میں اضافہ ہوا۔فائل فوٹو

کرونا وائرس کی 30اقسام دریافت

کوروناوائرس ایک ہی بیماری نہیں بلکہ خطے اور ماحول کے ساتھ ہیت میں تبدیلی اورایج گروپ پر مختلف اثرات کی وجہ سے یہ مختلف بیماریوں میں بدلتا رہتا ہے سائنسدانوں کے اس نئے انکشاف نے دنیا کو چکرا دیا ہے اس وائرس کی اب تک30اقسام دریافت کی جاچکی ہیں۔

وائرس سے ایشیا کے مقابلے میں یورپ اورامریکا میں زیادہ اموات اور مختلف خطوں میں ہلاکتوں کی شرح میں فرق پرتحقیق کرنے والے چین کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ یہ نیا وائرس کچھ ممالک میں بہت زیادہ جان لیوا کیوں ثابت ہورہا ہے کیونکہ یہ خطے آباوہوا‘عمر حتی کہ خون کے گروپ کے مطابق اپنی ہیت میں تبدیلیاں لاتا ہے۔

چین کی ژجیانگ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر لی لان جوآن اور ان کی ٹیم نے مریضوں کے ایک چھوٹے گروپ میں اس وائرس کی اتنی اقسام کو دریافت کیا، جو اس سے پہلے رپورٹ نہیں ہووئی تھیں‘درحقیقت وائرسز میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں عموماً نہیں ہوتیں اور سائنسدانوں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ کورونا وائرس کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے‘اس ٹیم نے پہلی بار لیبارٹری شواہد کی بنا پر یہ بھی ثابت کیا کہ اس وائرس کی کچھ اقسام دیگر کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔

تحقیق میں وائرس میں جینیاتی تبدیلیوں کی تفتیش کے لیے غیرمعمولی طریقہ کار کو اپنایا گیا اور ہانگ ڑو کے 11 کووڈ 19 کے مریضوں میں سے وائرل اقسام کے نمونے حاصل کیے گئے اور پھر دیکھا گیا کہ وہ خلیات کو متاثر کرنے اور مارنے میں کتنے موثر ہیں محققین نے دریافت کیا کہ یورپ بھر کے بیشتر مریضوں میں اس وائرس کی جان لیوا اقسام موجود ہیں جبکہ امریکا کے مختلف حصوں جیسے ریاست واشنگٹن میں اس کی معتدل شدت کا باعث بننے والی اقسام کو دریافت کیا گیا۔

مگر نیویارک میں اسی ٹیم کی ایک الگ تحقیق میں اس وائرس کی جو قسم دریافت ہوئی، وہ یورپ سے وہاں پہنچی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہاں شرح اموات بیشتر یورپی ممالک سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں‘مگر محققین کے مطابق کمزور اقسام کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایک کے لیے خطرہ کم ہوگیا، درحقیقت 30 اور 50 سال کی عمر کے 2 مریضوں میں وائرس کی کمزور قسم موجود تھی مگر وہ بہت زیادہ بیمار ہوگئے، اگرچہ وہ دونوں آخر میں بچ گئے، مگر زیادہ عمر والے مریض کو آئی سی یو میں داخل کرنا پڑا۔

اس نئی تحقیق کے نتائج اس وبا کو مزید پیچیدہ بناتی ہے کیونکہ بچنے کی شرح کا انحصار متعدد عناصر جیسے عمر پہلے سے کوئی بیماری یا خون کے گروپ پر بھی ہوتا ہے ہسپتالوں میں کووڈ 19 کے تمام مریضوں کا علاج ایک ہی بیماری سمجھ کر کیا جاتا ہے یعنی ایک جیسا علاج ہوتا ہے، مگر چینی سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کسی خطے میں وائرس کی قسم کی وضاحت کی جانی چاہیے تاکہ اس کے مطابق علاج کیا جاسکے۔

تحقیق میں 30 سے زائد اقسام کو دریافت کیا گیا جن میں سے 19 اقسام بالکل نئی تھیں تحقیق کے مطابق ان تبدیلیوں سے وائرس کے اسپائیک پروٹین (وہ حصہ جو یہ وائرس کسی خلیے کو متاثرکرنے کے لیے استعمال کرتا ہے) کے افعال میں تبدیلیاں آتی ہیں۔