احتساب ہوتانظر نہ آنے کی اصل وجہ ماضی کے این آراو ہیں۔فائل فوٹو
احتساب ہوتانظر نہ آنے کی اصل وجہ ماضی کے این آراو ہیں۔فائل فوٹو

شوگر ملز مافیا کی دیدہ دلیری سے لوٹ مار۔سنسنی خیزانکشافات

وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کے بعد چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کردیا گیا ہے۔

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبرنے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے ہیں کہ کس طرح شوگرملزمافیا نے ملی بھگت سے عوام سے لوٹ مار کی اور قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ وزیراعظم نے چینی بحران رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کروایا، ہم نے مافیاز کو بے نقاب کرنا ہے جس نے ملک میں غریب کا خون چوسا اور ملک کو نقصان پہنچایا۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات شبلی فراز کا شہزاد اکبر اور شہباز گل کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ فورنزک رپورٹ کی ساری تفصیلات سے پتا چلے گا کہ ملک میں کیا ہوتا رہا،تاہم یہ ابھی شروعات ہے۔ ہمارا منشور تبدیلی لانا اور مافیا کو بے نقاب کرنا ہے۔ کمیشن پہلے بھی بنتے رہے لیکن حکومت ایسے ایشو کو منظرعام پرلا رہی ہے جو پہلے نہیں ہوا۔

شہزاد اکبرنے کہا کہ شوگرملزنے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پراورکچی پرچیوں پرگنا خریدا، کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے، 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا، شوگرملزنے-18 2017 میں چینی کی 13 روپے زیادہ قیمت مقررکی،2017-18 میں مل مالکان نے 51 روپے چینی کی لاگت بتائی، حالانکہ کمیشن نے تعین کیا یہ لاگت 38 روپے ہے۔

شہزاد اکبرنے بتایا کہ اسی طرح 2018-19 میں ساڑھے بارہ روپے کا فرق پایا گیا، 2019-20 میں 16 روپے کا فرق پایا گیا، شوگر ملز نے-19 2018 میں 12 اور 2019-20 میں 14 روپے زیادہ قیمت مقرر کی، ساری شوگرملزنے دو کھاتے بنائے ہوئے ہیں، ایک کھاتا حکومت کو دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے، چینی کی بے نامی فروخت بھی دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی، شوگر ملوں نے غیر قانونی طور پر کرشنگ یونٹس میں اضافہ کیا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ چینی کی قیمت میں ایک روپیہ اضافہ کرکے 5.2 ارب روپے منافع کمایا جاتا ہے، پاکستان میں تقریباً 25 فیصد گنا ان رپورٹڈ ہے جس سے اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا، پانچ برسوں میں 88 شوگر ملز کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی، ان شوگر ملز نے 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا، ان شوگر ملز نے 12 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈز واپس لئے یوں کل 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کو برآمد کی گئی چینی مشکوک ہے، پاکستان نے افغانستان کو چینی برآمد کی، پاکستان کی برآمد اور افغانستان کے درآمد ڈیٹا میں فرق آیا، ایک ٹرک 15 سے 20 ٹن لے کر جاسکتے ہیں، ایک ایک ٹرک پر70 سے 80 ٹن چینی افغانستان لے کر گئے ہیں، یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک کسی نے نوٹ نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ چینی کے 6 بڑے گروپس کا آڈٹ کیا گیا۔ الائنس مل کی اونرشپ میں مونس الہیٰ اور عمر شہریار کے شیئر ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں شوگر ملوں کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی۔ پانچ سالوں میں شوگر ملوں نے 22 ارب روپے کا ٹیکس دیا، جس میں 12 ارب ریفینڈ کے تھے۔ اس طرح پچھلے 5 سال میں کل ٹیکس 10 ارب روپے دیا گیا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر بے تحاشا فائدہ پہنچایا، شہبازشریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ کے شواہد ملے ہیں، العربیہ میں کچی پرچی کارواج بہت ملا ہے اور اس نے کسانوں کو40کروڑ روپے کم دیےگئے، جے ڈی ڈبلیو گروپ کی شوگر ملز کارپوریٹ فراڈ میں ملوث نکلی ہیں، جہانگیرترین گروپ کی شوگر ملز اوورانوائسنگ اور ڈبل بلنگ میں ملوث ہیں، شریف فیملی کی شوگر ملز میں ڈبل رپورٹنگ ثابت ہوئی۔

شہزاد اکبرکا میڈیا کو دی گئی اہم بریفنگ میں کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ پہلے کسی حکومت کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس طرح کے تحقیقاتی کمیشن بنائے۔

انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی جو کہ پبلک کر دی گئی ہے، اسے جلد پی آئی ڈی کی ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔ اس رپورٹ سے نظر آتا ہے کہ کاروباری طبقے نے نظام کو مفلوج کرکے بوجھ عوام پر ڈالا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں تمام چیزوں کا احاطہ کرتے ہوئے حیران کن انکشاف کیے گئے ہیں، اس میں لکھا ہے کس طرح گنا بیچنے والوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ کسان کو کچی پرچی پر ادائیگی بھی کی جاتی ہیں جبکہ تمام ملیں پندرہ فیصد سے لے کر 30 فیصد وزن کم تولتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار ہی کرے گا۔ شوگر ملیں کاشت کاروں کو امدادی قیمت سے بھی کم دام دیتی ہیں۔

معاون خصوصی برائے احتساب نے بتایا کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بہت ساری چیزیں سامنے آئی ہیں۔ یہ بے نامی ایکٹ کی خلاف ورزی اور ٹیکس چوری کا معاملہ ہے۔ جو سیلز چیک کی گئیں، وہ بھی ساری بے نامی ہیں۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں مختلف حربوں سے چینی کی قیمتیں بڑھتی ہیں، قیمتیں بڑھنے کا نقصان صرف عوام کو ہوتا ہے۔ کمیشن نے لکھ دیا ہے کہ مراد علی شاہ نے صرف اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی۔

انہوں نے کہا کہ چینی افغانستان کو ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ چینی کی ایکسپورٹ کا جب ڈیٹا چیک کیا گیا تو میچ ہی نہیں ہوا، اس میں اربوں کا فرق آیا۔ یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک چیک ہی نہیں کیا گیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دے دیا جن کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کین کمشنرز سے لیکر ایس ای سی پی، مسابقتی کمیشن،ایف بی آر، اسٹیٹ بنک سب نے غیر ذمہ داری دکھائی، وفاقی کابینہ نے دیگر ملوں کا بھی فرانزک آرڈر کرنے کی ہدایت دی اور ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی۔

خیال رہے کہا کہ اس سے قبل فیڈرل انوسٹی گیشن کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیراعظم کو شوگر انکوائری کمیشن کی فرانزک رپورٹ پیش کرتے ہوئے انھیں اس معاملے پر بریفنگ بھی دی۔

انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے لیے 25 اپریل کی پہلی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم کمیشن کی استدعا پر کابینہ نے مدت میں توسیع کی۔ توسیع کے بعد رپورٹ مئی کے تیسرے ہفتے میں آنی تھی لیکن ایک بار پھر مزید مہلت مانگی گئی جس کے بعد انکوائری کمیشن کو جمعرات تک کی مہلت دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ انکوائری کمیشن چینی سبسڈی کے معاملے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وفاقی وزیر اسد عمر اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پیش ہو چکے ہیں۔