سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس میں وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرلیں ،عدالت نے کہاکہ ریفرنس کی بدنیتی ،اے آریوکی قانونی حیثیت پرسوال پوچھے گئے، صدارتی ریفرنس میں نقص ہیں توکونسل سوموٹوکارروائی کرسکتی ہے،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ کیاجوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پرکارروائی کی پابند ہے؟،فرض کرلیں یہ ایک کمزورریفرنس ہے جس کے پس پردہ مقاصد ہیں،کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کی پابند ہے؟۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی آئینی درخواستوں پرسماعت ہوئی،سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف 10رکنی فل کورٹ کی سماعت کی،حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدالتی سوال کاجواب دینے سے قبل چندحقائق سامنے رکھوں گا۔
فروغ نسیم نے کہاکہ 10 اپریل2019کووحیدڈوگرنے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کوشکایت بھیجیں،8 مئی کووحید ڈوگرنے لندن پراپرٹیزسے متعلق اے آریوکوخط لکھا،خط میں لندن پراپرٹیزکی قیمت خریداورمارکیٹ ویلیوکابتایاگیا۔
عدالت نے استفسار کیاکہ یہ بتائیں لندن پراپرٹیزکی معلومات کیسے انٹرنیٹ پرشائع کی گئیں؟،وحید ڈوگر کی شکایت پرانکوائری کی تحقیقات کی اجازت کس نے دی؟،جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیاکہ اے آر یو نے شکایت پرانکوائری کا آغازکیسے کر دیا؟۔
فروغ نسیم نے کہاکہ عدالت کے تمام سوالوں کاجواب میرے پاس ہے،اے آریونے کیسے انکوائری کی،عدالت کو سب بتائوں گا،فروغ نسیم نے کہاکہ 1988 کے بعدبرطانیہ میں ہرپراپرٹی کاریکارڈاوپن ہے،اے آر یو کو قانون کی سپورٹ حاصل ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس میں حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کیلیے صدر کی اجازت درکار نہیں تھی ،وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اے آر یونٹ کو انکوائری کی اجازت دیتے ہیں ۔
جسٹس مقبول باقرنے استفسارکیاکہ اے آریویونٹ کی حیثیت کیا ہے ؟،کیاوحید ڈوگرکے کوائف کاجائزہ لیناضروری نہیں تھا۔
حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف انکوائری کیلیے صدر کی اجازت درکار نہیں تھی ،وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اے آر یونٹ کو انکوائری کی اجازت دیتے ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ لندن کی ایک پراپرٹی 2004 میں خریدی گئی،بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ پہلی پراپرٹی2004 میں خریدی گئی 2011 میں بیٹی کانام جائیداد میں شامل کیا ،فروغ نسیم نے کہاکہ جوڈیشل کونسل نے ریفرنس دائر ہونے پر معزز جج کو نوٹس جاری نہیں کیا،جوڈیشل کونسل نے پہلے اٹارنی جنرل کاموقف سنا اور پھر جسٹس قاضی فائز سے جواب مانگا۔
حکومتی وکیل نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز نے ابتدائی رپورٹ میں پرپراپرٹی سے انکار نہیں کیا،جوڈیشل کونسل نے 12 جولائی 2019 کو جج صاحب کو شوکازنوٹس جاری کیا،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ بظاہر ایسا لگتا ہے ٹیکس قانون کی پیروی نہیں کی گئی ،آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس میں جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ 2009 میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی آمدن3 کروڑ72 لاکھ تھی ،بظاہر لگتا ہے بطور وکیل جسٹس قاضی کے پاس کافی پیسہ تھا وہ کامیاب وکیل تھے ،ہمیں جج کی بددیانتی یاکرپشن دکھائیں ایسا کچھ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ غیرملکی جائیدادیں بچوں کے نام خریدی گئیں،2009 میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی آمدن3 کروڑ72 لاکھ تھی ،بظاہر لگتا ہے بطور وکیل جسٹس قاضی کے پاس کافی پیسہ تھا وہ کامیاب وکیل تھے۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ ہمیں جج کی بددیانتی یاکرپشن دکھائیں ایسا کچھ بتائیں جس سے جرم سامنے آئے،جج شیشے کے گھروں میں لیکن جوابدہ ہے،آئین ججزکو ذاتی حملوںں سے تحفظ فراہم کرتا ہے ،کچھ ایسا دکھائیں جس سے پتہ چلے یہ جائیداد جج صاحب نے خاندان کے افراد کے نام خریدی ،ہم نے یہاں دیکھا ہے غیر ملکی جائیداد کو ترسٹ کے ذریعے چھپایا گیا۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل دیتے کہاکہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ بینک ٹرانزیکشنزکاریکارڈ دکھا دیں ،میراایک لائن کاجواب ہے منی لانڈنگ سنگین جرم ہے،جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ اگرپیسہ بینکوں کے ذریعے گیا تو منی لانڈرنگ کی تعریف کیا ہوگی؟،بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ دوسرے جج نے تو دھرنا فیصلہ نہیں دیا حکومت نے ان کیخلاف بھی ریفرنس فائل کیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ کیاسپریم جوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس مستردکرسکتی ہے،سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس کوغیرقانونی قراردے سکتی ہے؟،فروغ نسیم نے کہاکہ جوڈیشل کونسل ریفرنس کرمسترد کرسکتی ہے،آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے سفارشات دینی ہوتی ہیں، جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ انکم ٹیکس کا نوٹس جج کی اہلیہ کو جاری کیا گیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جج کہتا ہے پراپرٹیزکامجھ سے نہیں ،متعلقہ لوگوں سے پوچھیں،آپ کہتے ہیں جواب جسٹس قاضی فائزعیسیٰ دے۔
جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ ایف بی آر میں انکم ٹیکس کا معاملہ کس مرحلے میں ہے؟جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ایف بی آرمیں غیرملکی جائیداد ظاہرکرنےکاکوئی قانون نہیں،بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ جج کے بچے ٹیکس ایمنسٹی کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ کیا یہ ٹیکس چوری کا مقدمہ ہے؟،حکومتی وکیل نے کہاکہ جوڈیشل کونسل کےسامنے جج کا مقدمہ ہے،بھارت میں جج کی اہلیہ اور بچوں کے نام اثاثے تھے،تحقیقات شروع ہوئیں تو بھارتی جج نے استعفیٰ دے دیا،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ کیاپاکستان کے قانون میں جج پرجائیداد ظاہرکرنے کی پابندی نہیں؟،بھارت کوچھوڑیں ،پاکستان کے قانون کی بات کریں،ایمنسٹی سکیم کا حوالہ دلائل میں کیوں دیا گیا؟ ۔فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ نے زرعی زمین پر ایگریکلچر ٹیکس دینے کاریکارڈ نہیں دیا،جسٹس قاضی فائزنے الزامات کاجواب دینے کے بجائے آزادعدلیہ کے پیچھے چھپننے کاسہارالیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اس مقدمے سے ایمنسٹی کا تعلق کیا ہے؟ کیا جج نے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھایا؟،فروغ نسیم نے کہاکہ جج صاحب نے ایمنسٹی سکیم سے کوئی فائدہ نہیں لیا،عدالت نے کہاکہ قانون دکھائیں جس میں جج کااہلخانہ کی جائیدادظاہرکرناضروری ہے،جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ میرے ذہن میں ایک بات کھٹک رہی ہے،ٹیکس قانون کا آرٹیکل 116 زیرکفالت کی بات کرتا ہے، عدالت نے وفاقی حکومت سے تحریری معروضات طلب کرلیں۔
عدالت نے کہاکہ ریفرنس کی بدنیتی ،اے آریوکی قانونی حیثیت پرسوال پوچھے گئے، صدارتی ریفرنس میں نقص ہیں توکونسل سوموٹوکارروائی کرسکتی ہے،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ کیاجوڈیشل کونسل صدارتی ریفرنس پرکارروائی کی پابند ہے؟،فرض کرلیں یہ ایک کمزورریفرنس ہے جس کے پس پردہ مقاصد ہیں،کیا کونسل ایسے ریفرنس پر کارروائی کی پابند ہے؟،آئینی درخواستوں پرسماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے دوبارہ ہوگی۔