جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے حکومت نے یہ جمپ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائے گا؟ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔
نجی ٹی وی کے مطابق دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ نے حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ ایک بات بتا دیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں یا نہیں؟فروغ نسیم نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتی ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ٹیکس قانون تو تمام شہریوں کے لیے ہیں جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹیکس سے متعلق کارروائی نہیں ہوتی۔
سٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا پاکستان میں بطور شہری خواتین کے حقوق نہیں؟ کیا خواتین پاکستان میں علیحدہ جائیداد نہیں خرید سکتیں، یہ کیسے فرض کرلیا گیا کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائے گا، یہ جمپ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائے گا، کیا خاتون جج کا خاوند پنشن نہیں لے سکتا؟
فروغ نسیم نے کہا کہ قانون میں جج کا لفظ دیا گیا جس سے مراد مرد اور خاتون دونوں جج ہیں، جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہی ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے۔
حکومتی وکیل نے کہا کہ کبھی نہیں کہا کہ جج احتساب کو نہیں مانتے، آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ڈسپلنری ہوتی ہے،ٹیکس کی نہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ ٹیکس گوشوارے جمع کراتی ہیں تو وہ زیر کفالت کیسے ہیں،جس پر فروغ نسیم نے قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میاں اور بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب اس آیت کا شان نزول بھی بتا دیں، آپ کو پتا ہی نہیں یہ آیت کیوں نازل ہوئی؟۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ ہمیں خطرناک صورتحال میں دھکیل رہے ہیں یہ آیت کیس سے متعلقہ نہیں۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قرآن پاک میں اثاثوں کے بارے میں کہا گیا ہے، کیا قرآن پاک سے دیےگئے حوالے غیر مسلم ججز پر بھی لاگو ہوں گے؟۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ اگر قانون میں جوابدہی ہے تو وہ جواب دیں گے، قانون کے مطابق کاروائی تو شروع کردی گئی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ ٹیکس کا قانون ریفرنس کے نکات میں سے ایک نکتہ ہے، جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جب آپ ثابت کریں گے کہ یہ جائیدادیں جسٹس قاضی عیسیٰ کی آمدن سے ہیں پھر منی ٹریل کا سوال ہو گا،میاں بیوی کا تعلق اوررشتہ تو ہمیں معلوم ہے، اس کیس میں آپ نے بیگم کے مالی معاملات کا تعلق جج صاحب سے ثابت کرنا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب آپ ہمارے سوالات کی تعریف کرتے ہیں لیکن جواب نہیں آتا، جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں سائل ہوں صرف گزارش کرسکتا ہوں۔