وفاقی حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کرتے ہوئے 72 کھرب 94 ارب 90 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کردیا۔ آمدن کا مجموعی تخمینہ 63 کھرب 14 ارب روپے رکھا گیا ہے، محاصل سے آمدن کا تخمینہ 36 کھرب 99 ارب 50 کروڑ روپے ہے، مجموعی اخراجات کا تخمینہ 72 کھرب 94 ارب 90 کروڑ روپے رکھا گیا ہے، بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 70 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر نے بجٹ پیش کیا۔
بجٹ میں ڈبل کیبن گاڑیوں، ای سگریٹ اور درآمدی مشینری پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور مقامی سطح پر تیارکردہ موبائل فون پر ٹیکس کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ
ذرائع کے مطابق کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن پچھلے سال والی ہی برقرار رہیں گی۔ بعض کابینہ ارکان نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا مطالبہ کیا تاہم وزارت خزانہ نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال میں یہ اضافہ ممکن نہیں۔
موٹر سائیکل اور رکشہ سستا ڈبل کیبن گاڑیاں مہنگی
وفاقی بجٹ میں آٹو رکشہ، موٹر سائیکل رکشہ اور 2 سو سی سی تک کی موٹرسائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم جبکہ ڈبل کیبن گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔
ای سگریٹ مہنگے، مقامی موبائل فون سستے
بجٹ میں ای سگریٹ اور درآمدی مشینری پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور مقامی سطح پر تیار کردہ موبائل فون پر ٹیکس کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حماد اظہر نے تقریر کے دوران کہا کہ پاکستان میں موبائل فون بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے،پاکستان میں موبائل فون بنانے کیلئے سیلزٹیکس میں کمی کی جارہی ہے،ڈبل کیبن گاڑیوں پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔ ان کا کہناتھا کہ درآمدی سگریٹ کی شرح 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کردی گئی۔
سگار، سگریٹ، انرجی ڈرنکس مہنگے
سگار اور سگریٹ کی پرچون قیمت پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کرنے جبکہ کیفینیٹڈ انرجی ڈرنکس پر 25 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔
مہنگے اسکولوں پر ٹیکس دگنا
حکومت نے بجٹ میں بھاری فیسیں لینےوالےتعلیمی اداروں پر100فیصدسےزائدٹیکس عائدکردیا۔ 2لاکھ روپےسےزائدسالانہ فیس لینےوالےتعلیمی اداروں کو100فیصدزائدٹیکس دیناپڑےگا۔
ہوٹل صنعت پر ٹیکس میں کمی
ہوٹل کی صنعت پر 6 ماہ کےلیے ٹیکس کی شرح ڈیڑھ فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
سیلز ٹیکس میں کمی
بجٹ تقریرکے دوران وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر نے بتایا کہ موجودہ بجٹ میں دکانداروں کیلیے سیلز ٹیکس 14 سے 12 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔عوام کوریلیف پہنچانے کیلیے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا،کورونااخراجات اور مالیاتی اخراجات کوبیلنس رکھنابجٹ کی ترجیحات میں ہے۔
بغیر شناختی کارڈ ٹرانزیکشن کی حد بڑھادی گئی
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں شناختی کارڈکےبغیرخریداری کی حد50 ہزارسےبڑھاکرایک لاکھ روپےکرنےکی تجویز دی گئی ہے۔
کورونا وائرس پیکیج
حماد اظہر نے بتایا کہ کورونا وائرس کے تدارک کیلیے 12 سو ارب روپےسے زائدکے پیکج کی منظوری دی گئی ہے، مجموعی طورپر کورونا وائرس کے حوالے سے 875ارب روپےکی رقم وفاقی بجٹ میں رکھی گئی، طبی آلات کی خریداری کیلئے 71 ارب، غریب خاندانوں کیلئے 150 ارب روپےمختص کیے گئے ہیں۔
خصوصی گرانٹ
بجٹ تجاویز میں ایمرجنسی فنڈ کے لیے 100 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ آزاد جموں کشمیر کے لیے 55 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 32 ارب، خیبر پختون خوا میں ضم اضلاع کے لیے 56 ارب، سندھ کے لیے 19 ارب، بلوچستان کے لیے 10 ارب کی خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے۔
کامیاب نوجوان پروگرام کیلیے 2 ارب روپے مختص
حماد اظہر نے بتایا کہ کامیاب نوجوان پروگرام کیلیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ای گورننس کےذریعے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تیارپلان کیلئے 1 ارب سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔
فنکاروں کیلیے مالی امداد
فنکاروں کی مالی امداد کیلیے آرٹسٹ پروٹیکشن فنڈ 25 کروڑ سے بڑھا کر 1ارب کردیا گیا ہے، عوام کو سستی ٹرانسپورٹ کی فراہمی کیلئے ریلوے کیلیے 40 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
حماد اظہر نے بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کیلیے 650 ارب روپے مختص کررہے ہیں، دیامر بھاشا، مہمند اور داسو ڈیم کیلیے بھی مالی وسائل فراہم کیے جارہے ہیں۔
ٹیکس وصولیوں کا ہدف
آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 49 کھرب 50ارب روپے مقرر کیے جانے کی تجویز ہے جب کہ بجٹ خسارے کا تخمینہ 34 کھرب 27 ارب روپے سے زائد رہنے کا امکان ہے۔
3437 ارب روپے بجٹ خسارہ
بجٹ میں وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے اور اخراجات 7137 ارب روپے ہے، اس طرح بجٹ خسارہ 3437 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے۔
بیرونی وسائل سےآمدنی کا تخمینہ
بجٹ دستاویزکے مطابق بیرونی وسائل سے 810 ارب روپے آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران براہ راست ٹیکسوں سے 2 ہزار 43 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے، آئندہ مالی سال کے دوران بلواسطہ ٹیکسوں سے 2 ہزار 920 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے۔
آئندہ مالی سال میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 450 ارب روپے کی آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے، قابل تقسیم محصولات سے آمدن کا تخمینہ 2 ہزار 817 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
1289 ارب کا دفاعی بجٹ
بجٹ میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف4963 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جبکہ دفاعی بجٹ کا حجم 1289.134 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
ریلوے، تعلیم، بجلی
عوام کو سستی ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے پاکستان ریلوے کے لیے 40 ارب روپے، تعلیم کے لیے 30 ارب روپے، شعبہ صحت کے لیے 20 ارب، توانائی اور بجلی کے لیے 80 ارب، خوراک و زراعت کے لیے 12 ارب، موسمیاتی تبدیلی کے لیے 6 ارب روپے، سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے 20 ارب روپے اور قومی شاہراہوں کے لیے 118 ارب رکھے گئے ہیں۔
ٹڈی دل، کامیاب نوجوان، زراعت
ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے 10 ارب روپے، کامیاب نوجوان پروگرام کے لیے 2 ارب روپے جبکہ فنکاروں کی مالی امداد کے لیے 25 کروڑ سے بڑھا کر ایک روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صوبوں کا حصہ 2873.7
اگلے بجٹ میں این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے، مجموعی ریونیو کا تخمینہ6573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر کے ریونیو کا 4963 ارب روپے ہے اور نان ٹیکیس ریونیو 1610 ارب روپے ہے، جبکہ وفاقی ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 2873.7 ارب روپے ہے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ میں کمی
آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت 51 ارب روپے کی کمی کی جا رہی ہے۔ مجموعی وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1324 ارب روپے ہوگا،وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کیلئے 650 ارب روپے رکھنے کی تجویز جبکہ صوبوں کیلiے 674 ارب رکھنے کی تجویز ہے،
نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اور بلین ٹری سونامی
وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بلین ٹری سونامی اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے رقم مختص کی ہے، احساس پروگرام کی رقم کو 187 سے بڑھاکر 208 ارب کردیا گیا ہے، توانائی اور خوراک سمیت دیگر شعبوں میں سبسڈی کیلئے 180 ارب کی رقم مختص کیے گئے ہیں۔
مختلف شعبوں کو ٹیکس چھوٹ اور قرض
کسانوں کو 980 ارب روپے گندم کی خریداری کے لیے ادا کیے گئے، تعمیراتی شعبے میں تیزی کے لیے آسان ٹیکس متعارف کرائے، سیمنٹ سیکٹر کو وِد ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دی گئی، سستے رہائش گاہوں کے لیے 90 فی صد ٹیکس چھوٹ دی گئی، تعمیرات کو صنعت کا درجہ دیا گیا، کاروبار میں تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 4 فیصد کم ریٹ پر قرض دیا، 7 لاکھ 75 ہزار قرض داروں کو بنیادی رقم کی ادائیگی کے لیے 3 ماہ چھوٹ دی گئی ہے، انفرادی اور کاروباری قرضوں کے لیے 800 ارب روپے سہولت دی، طویل المدتی قرضوں کی شرائط میں نرمی کی گئی ہے، درآمد کنندگان کے لیے پیشگی ادائیگی کی حد بڑھا دی گئی ہے۔
ٹیکس ڈیوٹی میں اضافہ
حماد اظہر نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں درآمدی سیگریٹ پرایف ای ڈی 65فیصد سے بڑھا کر100فیصد کرنے جبکہ ای سیگریٹ فلٹرراڈز پر بھی ایف ای ڈی کی شرح بھی بڑھائی جارہی ہے۔
ودھ ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آسان کاروبار کیلئے 9 فیصد ودھ ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز سامنے آئی جبکہ ٹیکس دینے والے شادی ہالز اور بچوں کی اسکول یا تعلیمی فیسوں پر والدین پر عائد ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔
ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والے والدین کے لیے اسکولوں کی فیس پر ٹیکس کی شرط ختم کردی گئی جبکہ نادہندگان کے لیے اسکول فیس پر ٹیکس کی شرط کو برقرار رکھا گیا ہے۔ آٹو رکشہ،موٹرسائیکل رکشہ،200سی سی موٹرسائیکل پرایڈوانس ٹیکس ختم جبکہ نان ریزیڈینٹ شہریوں کے لئے آف شور سپلائیز پر ودہولڈنگ ٹیکس میں کمی کردی گئی۔
صنعت کاروں کے لیے ٹیکس چھوٹ اور مختلف درآمدی اشیا کی ڈیوٹی میں کمی
صنعت کاروں کے لیے خام مال کی درآمدات پر انکم ٹیکس کی شرح ساڑھے 5 فیصد سے ایک فیصدکرنے کی تجویز، ٹیکس ریفنڈ میں شفافیت کیلئے مرکزی ٹیکس ریفنڈ قائم کرنے کی تجویز ، سیمنٹ کی پیداوار میں ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز شامل کی گئی، 2ہزار ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح اور ربڑ، گھریلو اشیا، خام مال پرڈیوٹی میں بڑی کمی کردی گئی۔
مختلف منصوبوں کے لیے رقم مختص کرنے کی تجویز
نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کیلیے 1.5ارب روپے رکھنے کی تجویز، سی پیک کے منصوبوں کیلئے118ارب روپے مختص، ای گورننس کیلئے ایک ارب روپے سےزائد مختص، آبی وسائل کی بہتری کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے گئے۔
زراعت ، سماجی شعبے، مواصلاتی اور تعلیمی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقم
آئندہ مالی سال میں زراعت کے لیے 10 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا، مواصلاتی منصوبوں کے لیے 37 ارب، تعلیمی منصوبوں، مدارس کا نصاب اور ای اسکولز کے قیام کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔