اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو
اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی فیصلے کی نقل موصول ہو گئی ہے۔فائل فوٹو

بہت عرصہ منہ بند رکھا،جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سپریم کورٹ پہنچ گئے

جسٹس عمرعطا بندیا ل کی سربراہی میں لاجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کی اس دوران جسٹس قاضی فائزعیسیٰ  خود سپریم کورٹ پہنچ گئے اورانہوں نے فروغ نسیم کے دلائل کے دوران عدالت سے بات کرنے کی اجازت لی ۔لارجر بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جج صاحب آپ آئے ہیں تشریف رکھیں ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اہلیہ کا موقف سن کر جتنے مرضی سوال کریں،انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے،منہ بند کرتے ہوئے اس ریفرنس کو برداشت کیا،ہر دن اس معاملے پر ٹی وی چینلز پر بحث کی گئی ،اہلیہ کے موقف کے بعد میں اپنی درخواست پر مقدمہ لڑوں گا، حکومتی وکیل نے کہا تھا ایف بی آر والے جج صاحب سے ڈرتے ہیں۔

جسٹس فائز کا کہناتھا کہ ایف بی آر نے فیصلہ ہمارے حق میں دیا تو پھر یہی کیا جائے گا،عدالت میری اہلیہ کے بیان کے بعد ان سے سوالات کرسکتی ہے،اس معاملے پرصدر مملکت نے ایوان صدر میں بیٹھ کر 3 انٹریوز دیے،شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل نے ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنس کی ا،یک دوسرے کو جھوٹا قراردیا،میں منافق نہیں ہوں۔ جو کہتا ہو سچ کہتا ہوں،اس معاملے میں میری اہلیہ کو کیوں الزام دیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیا ل کی سربراہی میں لاجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کی جس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں کہا کہ میری اہلیہ نے ماسک ہمیشہ پہنے رکھنے کی تلقین کی ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ماسک کی وجہ سے ہم آپ کو ٹھیک سے سن نہیں پارہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے چہرے سے ماسک ہٹا دیااور کہا کہ اپنی اہلیہ کی تلقین کی خلاف ورزی کررہا ہوں۔

انہوں نے عدالت میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قاضی فائزعیسٰی کا مقدمہ نہیں ہم سب کا مقدمہ ہے اس دوران انہوں نے اپنی اہلیہ کا موقف عدالت میں پیش کرنے کی بھی پیشکش کردی ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں موقف پیش کرنا چاہتی ہیں،وہ کہتی ہیں کہ وہ ایف بی آر کو کچھ نہیں بتائیں گی،عدالت میری اہلیہ کو ویڈیو لنک کے ذریعے موقف پیش کرنے کا موقع دے، عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی پیشکش پر مشاورت کیلیے سماعت میں 5 منٹ کا وقفہ کردیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں کہا کہ حکومتی وکیل کہتے ہیں، منی ٹریل آج بتادیں کل بتادیں، پہلے انہوں نے تسلیم کیا کہ ان جائیدادوں سے آگاہ ہیں، تسلیم کیا کہ یہ جائیدادیں میری اہلیہ اور بچوں کی ہیں،کوئی چیز جائیدادوں کو چھپانے کیلیے استعمال نہیں کی گئی،کہا گیا کونسل کسی شخص کی اہلیہ کو بلا سکتی ہے،جوڈیشل کونسل نے ایک بار بھی بلا کر میرا موقف نہیں سنا، حکومت کی جانب سے تاخیر سے جواب جمع کرائے گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہناتھا کہ شہزاد اکبر نے گزشتہ روز ٹی وی پرآکر زیر التوامقدمے پر بات کی، کونسل میں ریفرنس سے بڑا جواب حکومت نے داخل کردیا،حکومتی وکیل نے بتایا کہ اہلیہ سلائی مشین چلاتی ہے جس سے 5 یا 6 ملین پائونڈ آتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسی بات نہیں،جسٹس قاضی امین نے اس نقطے پر حکومتی وکیل کو روکا تھا،ہمارے لیے آپ کا بڑا احترام ہے لیکن آپ درخواست گزار ہیں،آپ کے وکیل موثر انداز میں یہ بات کر سکتے ہیں،آپ جذباتی ہو سکتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں جذباتی نہیں ہوں۔

فروغ نسیم نے عدالت میں کہا کہ میں نے کبھی معزز جج کے بارے میں منفی سوچ نہیں رکھی، جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اگر اہلیہ جواب دیتی ہیں تو سارا معاملہ صاف ہو جائے گا،جج صاحب کے بیان پرغورکیا ہے، جج صاحب نے اہلیہ کی جانب سے بیان دیا،اہلیہ کا بیان بڑا اہم ہوگاتاہم ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ تحریری جواب داخل کرکے موقف دیں،تحریری جواب آنے کے بعد مقدمے کو سماعت کیلیے مقرر کیا جائے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری اہلیہ وکیل نہیں ،میری اہلیہ کو کسی وکالت کی معاونت نہیں ہوگی،اہلیہ کہتی ہیں اکائونٹ بتانے پر حکومت اس میں پیسہ ڈال کر نیا ریفرنس نہ بنا دے،اہلیہ تحریری جواب جمع کرانے کی پوزیشن میں نہیں، اہلیہ کا موقف سن کر جتنے مرضی سوال کریں،انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے،منہ بند کرتے ہوئے اس ریفرنس کو برداشت کیا ،ہر دن اس معاملے پر ٹی وی چینلز پر بحث کی گئی ،اہلیہ کے مو¿قف کے بعد میں اپنی درخواست پر مقدمہ لڑوں گا، حکومتی وکیل نے کہا تھا ایف بی آر والے جج صاحب سے ڈرتے ہیں۔

جسٹس فائز کا کہناتھا کہ ایف بی آر نے فیصلہ ہمارے حق میں دیا تو پھر یہی کیا جائے گا،عدالت میری اہلیہ کے بیان کے بعد ان سے سوالات کرسکتی ہے،اس معاملے پرصدر مملکت نے ایوان صدر میں بیٹھ کر 3 انٹریوز دیے،شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل نے ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنس کی ا،یک دوسرے کو جھوٹا قراردیا،میں منافق نہیں ہوں۔ جو کہتا ہو سچ کہتا ہوں،اس معاملے میں میری اہلیہ کو کیوں الزام دیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب ہم اپ کا احترام کرتے ہیں۔ اب اپ تشریف رکھیں۔حکومتی وکیل کو دلائل دینے دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں یہاں جج کی حیثیت سے نہیں آیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کورٹ کی کارروائی میں مداخلت کی ہے ،اگر آپ اپنے دلائل اپنے وکیل کے ذریعے دیتے تو بہتر ہوتا،عدالت اج اس معاملے پر اپنا حکم تحریرکردے گی، آپ اپنی اہلیہ کا پیغام لے کرآئے ، اپ کے اہلیہ کا پیغام ہمارے شیڈول کو متاثر نہیں کرے گا۔

جسٹس قاضی نے کہا کہ میں نے حکومتی آفر قبول نہیں کی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس کو ایف بی ارکو بھیج رہے ہیں،یہ فل کورٹ کی پروسیڈنگز ہیں آپ بیٹھ جائیں،9 ماہ میں ہم نے بھی کیس کی تیاری کی ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ ریفرنس میں نقائص ہیں۔

فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس کیخلاف درخواست کی قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا،جوڈیشل کونسل کو 29 مئی کو ریفرنس موصول ہوا،جوڈیشل کونسل نے 14 جون کو حکم جاری کیا ، جج نے 28 جون کو اپنا جواب جوڈیشل کونسل میں داخل کیا۔