پی آئی اے طیارہ حادثے کی عبوری رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔،فائل فوٹو
پی آئی اے طیارہ حادثے کی عبوری رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔،فائل فوٹو

طیارہ 100 فیصد فٹ۔پائلٹ اورایئر ٹریفک کنٹرولر ذمے دار قرار

پی آئی اے طیارہ حادثے کی عبوری رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔ غلام سرور نے کہا حادثے کی ذمے داری کریو کیبن اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کی بھی بنتی ہے، ذمے دار احتساب سے بچ نہیں پائیں گے۔

وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ طیارے کے پائلٹس طبی طور پر جہاز اڑانے کیلیے فٹ تھے، پائلٹس نے دوران پرواز کسی قسم کی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی، ابتدائی رپورٹ کے مطابق طیارہ پرواز کیلیے 100 فیصد فٹ تھا، جہاز لینڈنگ کے وقت 7220 فٹ کی بلندی پر تھا، کنٹرولر نے 3 بار پائلٹ کی توجہ اونچائی کی جانب دلوائی، یہ ریکارڈ پر ہے کہ جہاز کے لینڈنگ گیئر کھولے گئے۔

غلام سرور کا کہنا تھا 10 ناٹیکل مائل پرجہازکے لینڈنگ گیئر کھولے گئے، 5 ناٹیکل مائل پر لینڈنگ گیئر دوبارہ بند کیے گئے، جہاز رن وے پر رگڑے کھاتا رہا، انجن کافی حد تک متاثر ہوا، پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ اڑایا، کوئی ہدایت نہیں لی، پائلٹس نے ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظرانداز کیا، عبوری تحقیقات رپورٹ میں کنٹرول ٹاور اور پائلٹ کی کوتاہی سامنے آئی، اے ٹی سی نے جہاز کے رگڑ کھانے کے بعد بھی ہدایات نہیں دیں۔

وفاقی وزیر نے مزید کہاکہ بدقسمتی سے پائلٹ طیارہ کو آٹو لینڈنگ سے نکال کر مینوئل لینڈنگ پر لایا، وائس ریکارڈر سے پتہ چلا پائلٹس آخر تک کورونا کی گفتگو کرتے رہے، پائلٹ اور کوپائلٹ کے فوکس نہ ہونے پر سانحہ پیش آیا، چترال طیارے کا واقعہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے پیش آیا، پائلٹس کی جعلی ڈگریاں بھی ایک بدقسمتی ہے، ماضی میں پائلٹس کی جعلی ڈگریوں پر تعیناتیاں سامنے آئیں، پاکستان میں ٹوٹل 860 ایکٹو پائلٹس ہیں۔

غلام سرور خان کا کہنا تھا تحقیقات پر پتہ چلا متعدد پائلٹس کی جگہ کسی اورنے امتحان دیا، 860 میں سے 262 پائلٹس نے خود امتحان نہیں دیا، نچلے درجے کا اسٹاف، پائلٹ، ایڈمن تمام اسٹاف شامل ہے، جعلی لائنس والے پائلٹس کیخلاف ایکشن شروع ہوگیا، پی آئی اے کی نجکاری نہیں کریں گے۔

وزیر ہوا بازی نے کہا کراچی طیارہ حادثے کے دن ہی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا، انکوائری بورڈ نے احساس ذمے داری ادا کرتے ہوئے فرائض منصبی ادا کیے، انکوائری بورڈ نے جہاز کے تمام ملبے کا معائنہ کیا، فرائنسی ٹیم 26 مئی کو پاکستان آئی، انکوائری بورڈ میں پائلٹس کی نمائندگی نہیں تھی، ہم نے انکوائری بورڈ کو وسیع کیا اور ایئر بلیو کے 2 سینئیر پائلٹس کو بورڈ کا حصہ بنایا۔

غلام سرور خان کا کہنا تھا یہاں پر 6، 6 سال طیارہ حادثوں کی رپورٹس پیش نہیں کی جاتیں، انشاللہ جس طرح عبوری رپورٹ پیش کر رہے ہیں مکمل رپورٹ بھی ایوان میں پیش کریں گے، کراچی طیارہ حادثے پر انکوائری شفاف طریقے سے جاری ہے۔