سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج کیخلاف ویڈیو اسکینڈل کی انکوائری رپورٹ منظرعام پرآ گئی، اسلام آباد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کیخلاف انکوائری رپورٹ میں جج کو قصوروار قراردیتے ہوئے نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ملزم جج دباﺅ ثابت نہیں کرسکے، ملاقاتیں اپنی مرضی سے کرتے رہے تاہم لاہور ہائیکورٹ نے برطرف جج ارشد ملک کے خلاف انکوائری رپورٹ کے جاری ہونے سےلاعلمی کا اظہارکیا، لاہور ہائیکورٹ کے ترجمان کے مطابق ہائیکورٹ سے جج ارشد ملک سے متعلق کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی صرف لاہور ہائیکورٹ میڈیا سیل سے جاری کردہ رپورٹس ہی میڈیا میں چلائی جا سکتی ہیں۔
ترجمان کے مطابق معزز جج صاحبان کے واضح دستخط والی دستاویزات کو بھی چینل پرلائیو نہیں چلایا جا سکتا۔ لاہورہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے جج ارشد ملک کیخلاف 13صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ تیارکی جس میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ارشد ملک نے معاملے میں رضا کارانہ طور پر شمولیت اختیار کی، ارشد ملک نے ایسا کوئی ثبوت نہیں دیا جس سے ظاہرہو کہ انہیں خوفزدہ یا ہراساں کیا گیا تھا۔
ملزم ارشد ملک یہ بھی ثابت نہیں کر سکے کہ انہوں نے اپنی مرضی کیخلاف تمام متنازع کام کیے، ناصر بٹ، ناصر جنجوعہ اور مہر ناصر کی جوڈیشل افسر سے مسلسل ملاقاتوں سے ثابت ہوتا ہے ارشد ملک تک ان کی رسائی ہمیشہ سے تھی۔
انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ نواز شریف کیخلاف نیب ریفرنسز کا فیصلہ کرنے کے بعد ملزم افسر جاتی امرا ءمیں نواز شریف سے ملا، جج ارشد ملک نے کیسز کا فیصلہ کرنے کے بعد دوران عمرہ حسین نواز سے سعودی عرب میں ملاقات بھی کی، جج ارشد ملک اپنے اہل خانہ کے ہمراہ عمرہ کرنے گیا اور ناصر بٹ نے پھر سے ملزم افسر سے رابطہ کیا اور حسین نواز سے ملاقات کی، جج ارشد ملک کی مدینہ میں حسین نواز شریف سے ملاقات کو اچانک نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ یہ طے شدہ تھی۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق ملزم افسر نے نواز شریف کیخلاف اپنے ہی جاری کیے گئے فیصلے پر تیار کی گئی اپیل کا جائزہ بھی خود لیا، ملزم افسر ارشد ملک نے تسلیم کیا کہ 2000ءسے 2003ءمیں ملتان تعیناتی کے دوران متنازع ویڈیو بنانے والے میاں محمد طارق سے جان پہچان ہوئی۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق ملزم جج ارشد ملک کی نواز شریف، حسین نواز سمیت دیگر سے ملاقاتیں کرنا ضابطہ اخلاق کی دفعہ 7، 30اور 31کی خلاف ورزی ہے، ملزم جوڈیشل افسر کا ایک طرف کہنا کہ اسے بلیک میل کیا گیا اور دوسری طرف نواز شریف کیخلاف فیصلے کا آخری پیرا ملزم کے موقف کی نفی کرتا ہے ،ملزم جج ارشد ملک نے اپنے دفاع میں جتنی بھی دستاویزات پیش کیں وہ تمام غیر مصدقہ فوٹو کاپیاں پیش کیں جنہیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
ملزم جج ارشد ملک کیخلاف مس کنڈکٹ کا الزام ہے اور ملزم نے الزامات کی تردید نہیں کی بلکہ کہا کہ اس نے ملاقاتیں دباﺅ کے تحت کیں، ملزم جج ارشد ،ملک نے کہا ہے کہ وہ ایسا عمل نہیں کرنا چاہتا تھا کہ جس سے اس کے اہل خانہ کو تکلیف پہنچائی جائے، ملزم ارشد ملک نے اپنا جرم تسلیم کیا مگر استدعا کی کہ اسے معاف کر دیا جائے۔
جج کو اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنا لازم ہوتا ہے، ضابطہ اخلاق کی دفعہ 30کے تحت کسی بھی جج کو کسی بھی فریق سے ملاقات یا رابطہ نہیں کرنا چاہیے۔