جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ نے ایک غیر معمولی بیان جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے 21 جولائی 2020 کو ذاتی حیثیت میں پیش ہوکراپنا جواب الجواب جمع کروایا ہے۔
سرینا عیسیٰ بتاتی ہیں کہ انہوں نے انکم ٹیکس کمشنر سے اپنے جواب الجواب میں وہ 12 نکات پر تفصیلات دوبارہ مانگیں جو انہوں نے اپنے 9 جولائی 2020 کے جواب میں بھی مانگی تھیں مگرایف بی آر حکام میرے پوچھے گئے 12سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے شکایت کی کہ اپنے ٹیکس ریٹرنس کی کاپی کا مطالبہ کیا تھا جو فراہم نہیں کیے جا رہے، ریحان نقوی جنہوں نے میرے ٹیکس ریٹرن فائل کیے تھے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر میں 21 جولائی کو خود دوبارہ ایف بی آر میں پیش ہوئی اورجواب الجواب جمع کرایا۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر کے بھیجے گئے نوٹسزکی تحریروں میں واضح فرق موجود ہے تاہم دونوں پر دستخط کمشنر ایف بی آر ذوالفقار احمد کے ہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات واضع ہو چکی ہے کہ ایف بی آر حکام کسی سے ہدایات لے رہے ہیں۔
جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا کہ میرے ٹیکس ریٹرن کی کاپی نہ دینا بہت پریشان کن ہے کیونکہ ایف بی آر مجھ سے ان ٹیکس ریٹرنز کا جواب مانگ رہا ہے جو میں نے جمع نہیں کروائے تھے کیونکہ اس وقت میری کوئی قابل ٹیکس آمدن نہیں تھی اورایسے گوشواروں کی بنیاد پر جواب مانگنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے خلاف کچھ گھڑا جارہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے کہا کہ انہیں اب کوئی شک نہیں رہ گیا کہ ایف بی آر افسران نہ صرف اپنی ساکھ کھو چکے ہیں بلکہ خود مختاری سے کام کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ کارروائی کے لیے ’کسی‘ سے ہدایات لے رہے ہیں۔