لاہور: وفاقی حکومت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو مجرموں کی حوالگی کے تحت برطانیہ سے واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ امور شہزاد اکبر نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت مشروط تھی اور 8 ہفتوں کے لیے تھی، ضمانت میں توسیع کے لیے انہوں نے پنجاب حکومت سے قانون کے تحت درخواست کی جو مسترد کردی گئی لیکن وہ واپس نہیں آئے، شہباز شریف نے ذاتی ضمانت دی تھی کہ نواز شریف علاج کے بعد واپس آجائیں گے، لیکن لندن میں نواز شریف کا علاج تو دور کی بات انہیں ایک ٹیکہ بھی نہیں لگا۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ 2 مارچ 2020 کو حکومت نے برطانوی حکومت کو مکتوب بھیجا تھا کہ نواز شریف مفرور ہیں، ان کی ضمانت منسوخ ہوچکی ہے، انہیں واپس بھیجا جائے، لیکن انہیں واپس نہیں بھیجا گیا، اب وفاقی حکومت نے برطانوی حکومت سے دوبارہ رابطے کا فیصلہ کیا ہے، ہم نیب سے بھی کہہ رہے ہیں کہ نیب اس پر ایکسٹراڈیشن کی درخواست دائر کرے تاکہ نواز شریف کو واپس لایا جاسکے، وہ دو کیسز میں سزا یافتہ مجرم ہیں، ان کی واپسی سزا یافتہ مجرم کے طور پر ہوگی۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ نواز شریف لندن کی سڑکوں پر مزے سے گھوم پھر رہے ہیں اور لطف اندوز ہورہے ہیں، تصاویر میں ان کی بہت اچھی صحت نظر آرہی ہے، وہ باقی سزا ہنستے کھیلتے کاٹ سکتے ہیں، یہ ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ نظام انصاف پر طمانچہ اور مذاق ہے، انہیں واپس لانے کےلیے تمام قانونی طریقہ کار اختیار کیے جائیں گے، ان کے ضمانتی شہباز شریف سے بھی پوچھ گچھ ہوگی اور دیکھا جائے گا کہ ان کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ اپوزیشن ایف اے ٹی ایف سے متعلق منی لانڈرنگ قانون سازی میں روڑے اٹکا رہی ہے جس کے عوض این آر او پلس پلس مانگ رہی ہے، وہ چاہتی ہے کہ نیب منی لانڈرنگ کیسز سے الگ کر دیا جائے، لیکن حکومت کسی بھی صورت بلیک میل نہیں ہوگی اور وزیراعظم این آر او دینے کے لیے تیار نہیں، اپوزیشن ذاتی مفاد کو چھوڑ کر ملک کا سوچے، قانون تو ہم ہر صورت منظور کرالیں گے، اپوزیشن بھی اس میں شامل ہو تو اچھا ہوگا۔
معاون خصوصی نے بتایا کہ اگر ہم فیٹف کی بلیک لسٹ میں گئے تو ایران اور عراق والے حالات پیدا ہوسکتے ہیں، پاکستان پوری دنیا سے کٹ جائے گا، انسداد منی لانڈرنگ کا بہتر نظام نہ ہونے کے باعث ہم گرے لسٹ میں گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیب قوانین میں صرف نئی تعریفات آرہی ہیں اور رپورٹنگ کو بڑھایا جارہا ہے، کوئی نئی عدالت اور نیا دفتر نہیں بنایا جارہا، لیکن اپوزیشن چاہتی ہے کہ اس میں سے نیب کا لفظ نکال دیا جائے۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ شوگر کمیشن رپورٹ میں جہانگیرترین اور سلمان شہباز کا بھی نام ہے، شوگرکمیشن کی سفارشات اداروں کوبھیج دی گئی ہیں، ایف آئی اے نے کام شروع کردیا ہے، جہانگیرترین کی کمپنی کو ابھی تک عدالت سے اسٹے نہیں ملا، ادارے قانون کے تحت کارروائی کریں گے۔