وزیراعظم نے کہا ہے کہ وفاق اتنا ہی پیسہ صوبوں کو بھیج سکتا ہے، جتنا ٹیکس جمع ہوتا ہے، ماضی میں بر وقت فیصلے نہ ہونے سے صنعتوں پر بوجھ پڑا، انہوں نے خبردارکیا کہ سردیوں میں گیس کا بحران سنگین ہوسکتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی قومی مسئلے پر بحث ہی نہیں ہوئی۔
پیٹرولیم ڈویژن کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کسی بھی جمہوری ملک کے عوام کو مسائل اور چیلنجز کا علم ہوتا ہے، ہماری انڈسٹری آج مشکل میں ہے، بجلی کی پیداوار سے متعلق بہت پہلے سوچنا چاہیے تھا، پہلے سوچا جاتا تو عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ نہ پڑتا۔
انہوں نے کہاکہ ایل پی جی کی پیداواری لاگت 4 فیصد زیادہ ہے، سبسڈی کا مقصد غریب عوام کیلیے آسانی پیدا کرنا ہے، سبسڈی وہ لوگ لے رہے ہیں جو پہلے ہی بہت طاقتور ہیں، سبسڈی سے ہمیشہ فائدہ طاقتور ہی نے اٹھایا، آئی پی پیز کا شکر گزار ہوں انہوں نے ہمارے ساتھ معاہدے پر مذاکرات کیے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے بڑے بڑے مسائل پر قومی سطح پر بحث ہو اور پاکستان کو درپیش چیلنجز کو سامنے رکھ کر بحث ومباحثہ کرنا ہوگا۔ سردیوں میں گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بھی معاملات پر بحث کی گئی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ 27 فیصد پاکستانیوں کو گیس پائپ لائن ملتی ہے اور میں بھی ایل پی جی گیس کا استعمال کرتا ہوں جبکہ سردیوں میں ہمیں گیس کی کمی اور بحران کا سامنا ہوتا ہے تاہم امید ہے ہم گیس کی پیداوار میں کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات گیس کی پیداوار کے لیے اقدامات میں آگے نہیں بڑھتے اورگیس کی پیداوار کے لیے بھی بھاری اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ سبسڈی کا دوسرا مقصد جی ڈی پی کو بڑھانا ہے اور سبسڈی سے ہمیشہ طاقتور نے ہی فائدہ اٹھایا ہے۔ پہلے سوچا ہوتا تو عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ نہ پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی جمہوری ملک کے عوام کو ملکی مسائل اور چیلنجز کا علم ہوتا ہے۔ پاکستان میں بے پناہ وسائل ہیں لیکن اس سے پہلے اس بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔وزیر اعظم عمران خان نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ چین کی معیشت اور اداروں میں کامیابی کا راز میرٹ ہے اور چین 20 سالہ طویل المدتی منصوبے بناتا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی معیشت کا راز نظام کی مضبوطی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں باہر سے گیس لاکر بیچ ہی نہیں سکتے۔ ہمیں سبسڈی کی مد میں جو فائدہ ہوتا ہے وہ ہمارے قرضوں پر چلا جاتا ہے۔