منی لانڈرنگ کیس میں لیگی صدر شہباز شریف اوران کی بیٹی جویریہ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ رابعہ عمران اور نصرت شہبازکو نوٹس موصول نہ کرانے پرعدالت نے برہمی کا اظہارکیا اوردونوں کی دوبارہ طلبی کے نوٹس جاری کر دیے۔
سماعت کے دوران شہباز شریف نے جج جواد الحسن سے استدعا کی کہ کیا میں کچھ کہ سکتا ہوں جس پر جج جواد الحسن نے استفسارکیا کہ مجھے اندازہ تھا کہ آپ کچھ کہیں گے، آپ کو اجازت ہے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہا جا رہا ہے میں نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے، میرے فیصلوں سے نواز شریف اور بیٹوں کو بزنس میں نقصان ہوا، میں نے 10 سال پوری ایمانداری سے خدمت کی۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کئی سو ارب روپے حکومتی خزانے کے بچائے، میں نے 3 ادوار میں سرکاری تنخواہ وصول نہیں کی، سندھ حکومت نے گنے کی قیمت 155 سے 165 روپے کی، میں نے 180 روپے برقرار رکھی، کسانوں کے مفاد کو پہلے ترجیح دی، دس سال خدمت کی ہے، اس کا یہ صلہ دیا جا رہا ہے۔
جج جواد الحسن نے ریمارکس دیے کہ خدمت کا صلہ اللہ سے مانگیںں، آپ کا مکمل بیان ریکارڈ کیا جائے گا، کچھ نا ہوا تو آپ بری ہو جائیں گے۔
نیب پراسیکیوٹر نے سلیمان شہباز کے وارنٹ سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ بیرون ملک ہونے کے باعث ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی، جس پرعدالت نے سلمان شہباز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھے اور نیب کو ہدایات کی کہ اندرون اور بیرون ملک تمام اتھارٹیز سے ہدایات لیکر رپورٹ جمع کرائیں۔
جیل حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بخارکے باعث حمزہ شہباز کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ احتساب عدالت نے حمزہ شہبازکو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیا جس کے بعد منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت 14 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔