گزشتہ روز لاہور سیالکوٹ موٹروے پر نامعلوم افراد نے خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے پاس موجود ایک لاکھ روپے سمیت زیورات بھی چھین کر لے گئے۔ اس واقعے پر ملک بھر میں غم و غصہ پھیل گیا ہے جبکہ لاہور پولیس کے سربراہ نے متاثرہ خاتون کو ہی قصور وار قرار دے دیا۔
خاتون کے اہل خانہ نے تھانہ گجرپورہ میں مقدمہ درج کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے دو بچوں کے ہمراہ اپنی کار میں لاہور سے گوجرانوالہ جارہی تھیں۔ راستے میں پٹرول ختم ہوگیا۔ اس دوران دو مسلح ملزمان آئے اور گاڑی کے شیشے توڑ کر خاتون کو باہر نکالا اور قریبی کھیتوں میں لے جاکر زیادتی کا نشانہ بنایا۔
اس واقعے پر نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے کہا کہ ’یہ خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے نکلی ہیں، گوجرانوالہ جانے کیلئے، میں پہلے تو یہ حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں، آپ سیدھا جی ٹی روڈ پر جائیں جہاں آبادی ہے، وہاں سے گھر چلی جاؤ۔‘
سی سی پی او نے مزید کہا کہ ’اگر آپ اس طرف سے (موٹروے) نکلی ہو تو کم از کم اپنا پٹرول چیک کرلو، اس طرف پٹرول پمپ نہیں ہوتے۔‘
سی سی پی او عمر شیخ کو موٹر وے پر زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق سوالات اٹھانا مہنگا پڑ گیا ہے، ان کے بیان پر ناصرف اپوزیشن بلکہ حکومتی ارکان اور سوشل میڈیا پر بھی شدید تنقید کی جارہی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کمیٹی نے ناصرف واقعے کے حوالے سے متعلقہ حکام سے ناصرف رپورٹ طلب کرلی ہے بلکہ سی سی پی او لاہور عمرشیخ کو نازیبا اور بےحسی پر مبنی بیان کی وضاحت کے لیے بھی بللایا ہے۔ کیمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ موٹروے پر خاتون سے زیادتی اور پولیس کا مدد کو نہ آنا تشویشناک ہے۔
سی سی پی او لاہور کے اس بیان پر ناصرف اپوزیشن رہنما بلکہ وفاقی وزرا بھی شدید تنقید کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی توئٹ میں کہا ہے کہ پولیس افسر کا توجیہات پیش کرنا اور زيادتی کا شکار خاتون پر ہی سوال اٹھانا افسوسناک ہے۔ ایک پولیس افسر کی طرف سے ایسا بیان ناقابل قبول ہے۔