پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد ایک ادارے نے دھمکی دے کر 19 ویں ترمیم پاس کروائی۔ اب ہم سب کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ اس ترمیم کو ختم کیا جائے۔
اسلام آباد میں پاکستان بار کونسل کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے عدلیہ کی آزادی کیلئے فریم ورک تیار کیا تھا اور ہم نے اس پر اپنے حصے کا کام بھی کیا۔ باقی کام عدلیہ کو کرنا تھا جو ابھی تک نہیں ہوا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے ججوں کی تقرری میں عوامی رائے، صوبوں کی نمائندگی اور پارلیمنٹ کو بالادست بنایا تھا مگر ایک ادارے نے ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو تھریٹ کے طور پر لیتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر 19 ویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار نہیں بدلا گیا تو 1973 کی آئین کو لپیٹ دیا جائے گا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ججوں کی تعیناتی کے طریقہ میں عوام، بار کونسلز اور پارلیمنٹ کا سب سے زیادہ کردار ہونا چاہئے۔ آپ نے اگر اس ملک کے ہر سیاست دان کو ڈنڈے اور عدالت کے ذریعے چلانا ہے تو سہیل وڑائچ کے بقول یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
انہوں نے ملک میں جاری مبینہ احتساب کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میں دو سال کا تھا، تب سے اپنی والدہ بینظیر بھٹو کے ساتھ احتساب، عدلیہ اور جیلوں کو دیکھ رہا ہوں۔ بینظیر تمام مقدمات میں باعزت بری ہوگئیں مگر افسوس وہ آج ہمارے درمیان نہیں۔
بلاول نے کہا کہ پاکستان میں شہری آزادیاں، سیاسی اور انسانی حقوق، میڈیا اور عدلیہ کی آزادی سلب ہوچکی ہے۔ مدینہ کی ریاست میں 2020 میں کوئی ایک کتاب نہیں لکھ سکتا، کوئی ٹوئٹ نہیں کرسکتا، سیاست دان انٹرویو نہیں دے سکتے۔ انٹرویو کاٹ دیے جاتے یا نشر ہونے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ یہ انسانوں کا اور زندہ قوموں کا طریقہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک کے تمام باشعور طبقات کی جانب سے ایک ہی موقف سامنے آنا چاہیے کہ شہری آزادیوں، انسانی حقوق، میڈیا، پارلیمان اور عدلیہ کی آزادی پر ہم سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان نے پاکستان میں جمہوریت اور آئین کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اب ہم خون کا حساب چاہتے ہیں۔ یہ دستور خون سے بنا ہے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ پہلے پارلیمان اور پھر ملک کو آزاد کریں گے۔