تحریک کا آغاز اکتوبر میں، اپوزیشن جماعتوں کے ارکان استعفے بھی دیں گے،اے پی سی میں فیصلے
تحریک کا آغاز اکتوبر میں، اپوزیشن جماعتوں کے ارکان استعفے بھی دیں گے،اے پی سی میں فیصلے

اے پی سی:اپوزیشن کا آئندہ ماہ حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان

اسلام آباد: اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں نے آئندہ ماہ سے حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں حکومت کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جے یو پی کے اویس نورانی اور دیگر جماعتوں کے قائدین و رہنماؤں نے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق اے پی سی میں شریک اپوزیشن جماعتوں نے حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو ’پاکستان ڈیموکریٹک الائنس‘ کا نام دیا گیا ہے، اے پی سی میں ملک گیر حکومت مخالف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت اکتوبر میں احتجاج اور عوامی ریلیاں نکالی جائیں گی جس میں تمام اپوزیشن جماعتیں شریک ہوں گی۔ ملک میں آزاد شفاف نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے گا، دسمبر میں حکومت مخالف احتجاج کیا جائے گا اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق حکومت کو صرف جنوری تک وقت دیا جائے گا، نئے انتخابات نہ کرانے پر دھرنا یا مارچ شروع کیا جائے گا، اس دوران اسمبلیوں سے مستعفی ہونا بھی آپشنز میں شامل ہوگا۔
لندن سے اے پی سی میں بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا مقابلہ عمران سے نہیں ان کے لانے والوں سے ہے۔ اے پی سے جو بھی لائحہ عمل طے کرے گی (ن) لیگ اس کا بھرپور ساتھ دے گی۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔
علاج کے لیے لندن روانگی کے بعد پہلی مرتبہ باضا بطہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے والے نواز شریف نے کہا کہ اختیار چند لوگوں کو دے دینا بددیانتی ہے، الیکشن کے نتائج میں تبدیلی نہ ہوتی تو بیساکھیوں پر کھڑی حکومت وجود میں نہ آتی، دکھ کی بات ہے معاملہ ریاست سے اوپر تک پہنچ چکاہے، ملک میں ہر ڈکیٹیٹر نےاوسط نو سال حکومت کی، آئین پر عمل کرنے والے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی ووٹ سے جمہوری حکومت بننے پر ہاتھ پاؤں باندھ دئیے جاتے ہیں، ہماری تاریخ میں 33سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہو گیا، 73سالہ تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، ریاستی ڈھانچہ کمزور ہونے کی بھی پروا نہیں کی جاتی، عوامی مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے، پاکستان کو تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
نواز شریف نے حکومت کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ مل کر او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے، خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے، سوچنا چاہیے کیوں ہمارے قریبی ممالک ہم پر اعتماد کرنا چھوڑ گئے ہیں، شاہ محمود قریشی نے کس منصوبے کے تحت بیان دیے جس سے سعودی عرب ناراض ہوا، بھارت نے کٹھ پتلی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے اور ہم احتجاج بھی نہ کر سکے۔
انہوں نے کہا دنیا تو کیا اپنے دوست ممالک کی حمایت بھی حاصل نہ کر سکے، کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں، کیوں دنیا ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے، نالائق حکومت نے ہر معاملے ہر یوٹرن لیا، کشمیری عوام پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے، ہماری خارجہ پالیسی ملکی مفادات سے متصادم نہیں ہونی چاہیے، سی پیک کے ساتھ بی آر ٹی جیسا سلوک ہورہا ہے جہاں کئی سال بیت جانے کے باجود روازنہ مسائل کا سامنا ہے۔
(ن) لیگ کے قائد نے کہا کہ ملک بدامنی اور جرائم کا گڑھ بن چکا ہے، قوم کی ایک بیٹی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ دل دہلا دیتا ہے، حکومت کی تمام ہمدردیاں متاثرہ بیٹی کے بجائے افسر کے ساتھ ہیں، ووٹ کو عزت نہ ملی تو پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا، آج ملک میں مہنگائی بہت آگے بڑٰھ چکی ہے، آج بجلی اور گیس کے بل عوام پر بم بن کر گرتے ہیں، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والوں نے روزگار چھین لیا، آمر کے بنائے گئے ادارے نیب کو قائم رکھنا ہماری غلطی تھی، اس ادارے کا سربراہ اپنے اختیارات کا نازیبا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور یہ ڈھٹائی سے انتقامی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، عمران خان بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے، ان کا یوم حساب آئے گا، نیب کا ادارہ اپنا جواز کھو بیٹھا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ مسلح افواج کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے، ہم نے ماضی میں بھی اس حوالے سے کوتاہی نہیں کی اور آئندہ بھی نہیں کریں گے، ہم نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا، مسلح افواج آئین پاکستان اور قائد اعظم کی تلقین کے مطابق سیاست سے دور رہیں۔
اے پی سی سے خطاب کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم صرف حکومت گرانے کیلئے نہیں ملے ہیں، ہم حکومت نکال کر جمہوریت بحال کرکے رہیں گے، میثاق جمہوریت سے ہم آہنگی پیدا کی تھی، شرکاء اے پی سی میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں، ہم نے کوشش کی دو سال میں جمہوریت بچے۔
انہوں نے کہا کہ ناسمجھ سیاسی بونے سمجھتے ہیں وہ زیادہ ہوشیار ہیں، مجھ سے پہلے تخت نشین پوچھتا تھا آپ نے فارن آفس سے پوچھ لیا ہے تو میں کہتا تھا نہیں سر میں نے فارن آفس کو بتا دیا ہے، میں سمجھتا ہوں اس تقریر کے بعد جیل جانے والا پہلا بندہ میں ہی ہوں گا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن کی اے پی سی کے دوران اسمبلیوں سے استعفے اور سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تجویز دے دی۔
اے پی سی سے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اب میں زبانی دعووَں پر یقین نہیں رکھتا، ہمیں اب زبانی باتیں نہیں کرنی، ہمیں تحریری بات کرنا ہو گی، آج میں واضح کرنا چاہتا ہوں آج ٹھوس بات کرکے اٹھنا ہوگا، ہمیں ہر طرح کی سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کردینا چاہیے، چاہے کوئی بیرونی صدر یا وزیر اعظم بھی کیوں نہ آئے اس کا بھی بائیکاٹ کرنا ہوگا، آج اعلان کیا جائے کہ پارلیمنٹ کی ہر قسم کی قانون سازی کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیراعظم سمیت اسمبلیاں جعلی اور میرے نزدیک چیئرمین سینیٹ بھی جعلی ہے، اگر اسمبلیوں سے استعفے دینے اور سندھ اسمبلی توڑنے پر تیار ہیں تو آگے بڑھیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے کہا کہ اداروں سے بہت زیادہ تعاون ملنے کے باوجود حکومت ہر لحاظ سے بری طرح ناکام ہو چکی ہے، 2018 کے الیکشن میں آرٹی ایس کیسے بند ہوا؟ شہبازشریف تحقیقات کیلئے ہاؤس کی کمیٹی بنائی گئی لیکن کمیٹی نے سفر نہیں کیا، اگر کہوں کہ ملک میں جمہوریت نام کی ہے یہ بات غلط نہیں ہوگی، ملک میں مختلف اوقات میں حادثے ہوئے جن سے جمہوریت ڈی ریل ہوئی۔
صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ملک میں احتساب کے نام پر اندھا انتقام لیا جارہاہے۔ احتساب کرنا ہوتا تو کابینہ میں بیھٹے لوگوں سے شروع کرتے، گندم اور چینی اسکینڈل کی ذمے داریہی حکومت ہے، 10 سال کے قرضے ایک طرف اور ان کے دو سال کے قرضے ایک طرف پاکستان کے زرمبادلہ کا استعمال کریمینل طریقے سے ہورہاہے، چینی پہلے برآمد اورپھر درآمد کی گئی، کورونا سے قبل ہی پاکستان کی معیشت کو شدید ضرب لگی، سلیکٹڈ وزیراعظم نے آفت زدہ لوگوں کوبے سہارا چھوڑ دیا، قرضوں کے حصول کے باوجود مہنگائی آسمان سے باتین کررہی ہے،
اے پی سی کے میزبان اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت کے بغیر معیشت اور معاشرے کو ہرطرف سے کمزور کیا جاتاہے، کوشش کی تھی یہ ایونٹ بجٹ سے قبل ہو، عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، عوام اس اے پی سی سے ٹھوس لائحہ عمل چاہتے ہیں، عوام چاہتے ہیں آئین کے مطابق ان کو حق دینے کا وعدہ پورا ہو، جمہوریت نہیں ہوگی تو عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا، دوسال کا پی ٹی آئی حکومت کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہمیں ایوانوں کو آزاد کرا کے ان کا قبضہ چھوڑنا پڑے گا، فورم جو بھی فیصلہ کرے گا پیپلزپارٹی ان کے ساتھ ہے، ملک چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں نکلنا پڑے گا، عوام کے دروازے پر جاکران کو اپنے ساتھ ملانا پڑے گا، عوام نئی نسل کیلئے ہمارے ساتھ مل کر جمہوریت کا مطالبہ کریں، معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، منتخب نمائندے نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو نہیں سنا جاتاہے، بارشوں اور سیلاب کے بعد عوام کو لاوارث چھوڑ دیا گیا۔