آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) نے حکومت مخالف نیا اتحاد بنا لیا،جنوری 2021ء میں حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم کے فوری استعفے کا مطالبہ کردیا ۔
اپوزیشن نے حکومت مخالف الائنس کے نام پرمشاورت کے بعد اسے "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ” کا نام دینے پراتفاق کرلیا ۔
آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں نے میثاق جمہوریت کی طرزپرمیثاق کی تیاری کے لیے کمیٹی بھی قائم کردی ۔ نئے میثاق کا نام "چارٹرآف پاکستان” ہوگا۔
اس کے علاوہ آل پارٹیز (اے پی سی) کانفرنس میں حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ حکومت مخالف یہ لانگ مارچ جنوری 2021ء کو ہوگا۔
اپوزیشن کے لانگ مارچ سے قبل ملک بھر میں ریلیاں اور جلسے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اے پی سی نے وزیراعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں 26 نکاتی قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے قومی اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 1947ء سے اب تک تاریخ کو دستاویزی شکل دینے کیلیے ٹروتھ کمیشن اور چارٹرآف پاکستان مرتب کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے۔
اپوزیشن کی قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کی سمت کا تعین کرے گی جبکہ قومی اتحاد حکومت کے خلاف منظم احتجاجی تحریک چلائے گا۔
اے پی سی کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں شفاف آزادانہ انتخابات کرائے جائیں۔ جھوٹے مقدمات میں گرفتارارکان کو رہا کیا جائے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد نہ ہونے سے دہشتگردی واقعات میں اضافہ ہوا۔ ناتجربہ کار حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو خطرے میں ڈال دیا۔
اپوزیشن کی متفقہ قرارداد میں گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل کی اے پی سی قرارداد کی بھی توثیق کی گئی۔ قراردار میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کے شہریوں کو لاپتا بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
اے پی سی اجلاس میں پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے، ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادے اور اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی مذمت کی گئی۔
قرارداد کے متن میں الزام عائد کیا گیا کہ "سلیکٹڈ” حکومت سقوط کشمیر کی ذمے دار ہے۔ اس کے علاوہ آغاز حقوق بلوچستان پر عملدرآمد یقینی بنانے اور بلوچستان میں ایف سی کی جگہ سول اتھارٹی بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
آل پارٹیزکانفرنس کے بعد میڈیا کو اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ” کے نام سے نیا اتحادی ڈھانچہ تشکیل دیدیا گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ "سلیکٹڈ” حکومت کو دھاندلی سے مسلط کیا گیا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ شفاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ الیکشن میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ تباہ حال معیشت ملک کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ آٹا، چینی، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کم کیا جائے۔
جے یو آئی سربراہ کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ پر حملوں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ صدارتی نظام کے مذموم ارادے کو مسترد کرتے ہیں۔ سلیکٹڈ حکومت نے پارلیمان کو بے توقیر کرکے مفلوج کر دیا ہے۔ پارلیمان کی بالادستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اے پی سی اجلاس میں ‘’سلیکٹڈ’’ حکومت کو سقوط کشمیرکی ذمy دار قرار جبکہ افغان پالیسی کی ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو رول بیک کرکے اس کا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ منصوبے پر عملدرآمد کو تیز کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ حالیہ فرقہ وارانہ تناؤ میں حکومت کی مجرمانہ غفلت کی مذمت کرتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ تمام گرفتار صحافیوں کو رہا اور مقدمات خارج کیے جائیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اجلاس میں غیر جانبدار ججزکوبے بنیاد مقدمات میں جکڑنے پر شدید تشویش کا اظہاراورمذمت کی گئی۔ اپوزیشن کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آج کے بعد ربڑ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی۔ میڈیکل کمیشن سمیت شہری آزادیوں کے خلاف قانون سازی کو واپس لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اے پی سی وزیراعظم کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتی ہے۔ دسمبر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ جنوری 2021ء میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ہوگا۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا میڈیا سے گفتگو کا کہنا تھا کہ اے پی سی میں اتفاق رائے سے فیصلے کیے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئی۔ سوا 2 سال میں معیشت کا بیڑہ غرق کیا گیا۔ حکومت کا مزید قائم رہنا ملکی سلامتی کیلiے خطرہ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اپنی گفتگو میں کہنا تھا کہ ڈیموکریٹک موومنٹ کل سے کام شروع کرے گی۔ ہم ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ سلیکٹڈ حکومت کیخلاف نکل رہے ہیں، امید ہے عوام ساتھ دیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم پاکستان میں حقیقی جمہوریت لانا چاہتے ہیں۔ سلیکٹڈ حکومت کی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اپوزیشن متحد، پوری طاقت کے ساتھ تحریک چلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی معاہدے سے پیچھے ہٹے، اس کا حساب لیا جائے۔ حکومت اور سہولت کاروں کیخلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد، استعفے اوراحتجاج جمہوری آپشنز ہیں۔ ہم ملک میں شفاف الیکشن کا انعقاد چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے مائنس ون کا ذکرخود کیا تھا۔ سلیکٹڈ کو کسی اور سلیکٹڈ سے تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 36 ارکان باغی نہیں ہیں۔ کچھ ارکان کے کورونا ٹیسٹ مثبت تھے۔ ارکان کا مشترکہ اجلاس میں نہ آنا سازش نہیں تھی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم قومی اسمبلی میں ارکان کی درست گنتی چاہتے تھے۔ اجلاس میں گنتی کے دوران شہزاد اکبرکو بھی گنا گیا۔ ہم نے ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کا جمہوری طریقوں سے مقابلہ کیا۔