نیب اورحکومت کی پھرتیاں بے کار،شہباز شریف گرفتاری سے بچ گئے۔
لاہورہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ اورآمدن سے زاٸد اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں28 ستمبر تک توسیع کردی۔
شہبازشریف نے اپنی ضمانت کیلیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے شہبازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
وکیل شہبازشریف نے کہا کہ اگر میرے موکل کو آج نیب لے جاتا ہے تو کیا تحقیقات کرے گا؟ کیس کا ریفرنس دائر ہو چکا، تحقیقات مکمل ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو پکڑنا کسی کی انا کی تسکین سے زیادہ کچھ نہیں۔ تفتیشی افسر نے موکل کو کہا کہ اب مزید تفتیش کی ضرورت نہیں، جب ضرورت ہو گی آپ کو بتایا جائے گا۔ میرے موکل اس پر حلفیہ بیان دینے کو بھی تیار ہیں۔
نیب لاہور نے ہائی کورٹ سے شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کی ہے۔
وکیل شہباز شریف نے مؤقف اپنایا ہے کہ نیب شہباز شریف کو جن الزامات میں گرفتار کرنا چاہتی ہے، انہی الزامات میں احتساب عدالت نے شہباز شریف کا جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا مسترد کر دی تھی۔ ایسے احکامات کی قانون کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے جو بدنتیی کی بنیاد پر ہوں۔
چیئرمین نیب کے پاس لامحدود اختیارات نہیں ہیں اور نہ ایک تھانیدار سے زیادہ احتیارات ہیں۔ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں جس سے اثاثوں میں اضافے پر کارروائی کی جائے۔
درخواستگزار نے مؤقف اپنایا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف ہر درخواست میں محب وطن پاکستانی یا پڑھا لکھا سچا پاکستانی کیوں نظر آتا ہے۔ بری ہونے کی صورت میں بے بنیاد الزامات کی درخواست دینے والے کیخلاف کارروائی کا کوئی قانونی حق نہیں۔
وکیل شہباز شریف نے درخواست ضمانت میں چیئرمین نیب سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔ درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ 1972 میں بطور تاجرکاروبارکا آغاز کیا اور زراعت، شوگراور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اہم کردارادا کیا۔