سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل میں حکومت کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پہلے ثابت کریں کہ درخواست قابلِ سماعت ہے۔
انھوں نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 211 کے تحت جوڈیشل کونسل کی رپورٹ چیلنج نہیں ہوسکتی۔
سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے عدالت میں کہا کہ رجسٹرار اعتراضات کالعدم قرار دینے کے حکم میں درخواست قابلِ سماعت کا تاثر ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعتراضات کالعدم قرار دینے کے حکم میں آرٹیکل 211 کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تفصیلی فیصلے میں آرٹیکل 211 کی تشریح ہوگی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدرِ مملکت کا برطرفی کا فیصلہ بھی چیلنج کیا ہے، صدر نے کبھی جوڈیشل کونسل کی رائے مسترد نہیں کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کی اس نقطے پر بھی معاونت کریں کہ آئین نے برطرف جج کو اپیل کا حق کیوں نہیں دیا؟
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ججز برطرفی میں پارلیمان کا کوئی کردار نہیں۔
انھوں نے مزید ریمارکس دیے کہ بھارت میں ججز برطرفی میں پارلیمان کے کردار کی وجہ سے کھچڑی پک گئی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جنہیں آپ نوٹس جاری کرنے کا کہہ رہے وہ یہاں موجود ہیں، برطرفی کے فیصلے کو بدنیتی پر مبنی یا اختیار سے تجاوز ثابت کریں۔
عدالت نے مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔