اسلام آباد: آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی تیسری قسط دینے کے عوض بجلی، گیس اور یوٹیلیٹی اسٹورز پر دی جانے والی سبسڈیز ختم کرنے کی شرط عائد کردی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معطل شدہ پروگرام کی بحالی کے لیے ویڈیولنک کے ذریعے اقتصادی جائزہ کے حوالے سے جاری مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ رہا جبکہ آئی ایم ایف نے پروگرام جاری رکھنے اور تیسری قسط کے اجراء کے لیے بجلی اور گیس سمیت یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے دی جانے والی غیر ضروری سبسڈیز ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
وزارت خزانہ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جائزہ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور فریقین ورچوئل مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں اور دوسرے جائزہ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوششیں جاری ہیں، مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کا پروگرام بھی بحال ہوجائے گا اور رکی ہوئی قسط بھی جاری ہوجائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سبسڈیز کے خاتمے کی آئی ایم ایف کی شرط کوئی نئی بات نہیں، حکومت پہلے سے غیر ضروری سبسڈیز کے خاتمے پر کام کررہی ہے اور صرف مستحق لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیز دینے پر یقین رکھتی ہے جس کے لیے بہت سا کام کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بجلی اور گیس سمیت یوٹیلٹی اسٹورز سمیت دیگر مد میں دی جانے والی غیر ضروری سبسڈیز ختم کرنے سے متعلق آئی ایم ایف کے مطالبات پر غور کے لیے وزارت خزانہ میں خصوصی سیل قائم کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سیل سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کی سر براہی میں قائم کیا گیا ہے اور یہ خصوصی سیل غیر ضروری سبسڈیز کے خاتمے کے لیے اپنی سفارشات مرتب کرے گا اور معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے بھی تجاویز دے گا جس کے تناظر میں اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
واضح رہے کہ حکومت نے رواں سال مختلف شعبوں کے لیے 209 ارب روپے کی سبسڈی مختص کی ہے۔ توانائی کے شعبے کے لیے 150 ارب روپے، یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے 3 ارب، سستی گندم کےلیے 13 ارب روپے جبکہ میٹرو بس سروس کے لیے 2 ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ کے لیے بھی 30 ارب روپے سبسڈی کی مد میں مختص کیے گئے ہیں۔