پاکستان کی عدالت کا اس کیس میں دائرہ اختیار نہیں بنتا۔فائل فوٹو
پاکستان کی عدالت کا اس کیس میں دائرہ اختیار نہیں بنتا۔فائل فوٹو

بھارت نے عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے پھر انکارکردیا

 اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو کہا ہے کہ بھارت نے ایک بار پھر کلبھوشن یادیو سے متعلق عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکارکردیا ۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے کیلیے وزارت قانون کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے اور غیر متعلقہ افراد کو احاطہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں تھی ،صرف وکلا، متعلقہ عملہ، سائلین اور میڈیا کو داخلے کی اجازت دی گئی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ وزارت خارجہ نے 4 ستمبر کو بھارتی وزارت خارجہ کو عدالتی حکم کے حوالے سے آگاہ کیا، 7 ستمبر کو بھارتی حکومت نے پاکستانی وزارت خارجہ کا جواب دیا، بھارت نے ایک بار پھر عدالتی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کردیا ۔

اٹارنی جنرل نے بتایا بھارت نے آرڈیننس، قونصلر رسائی اور بھارتی وکیل کی اجازت نہ دینے پر اعتراضات اٹھائے، بھارت کا اعتراض ہے کہ پاکستان قونصلر رسائی صحیح طریقے سے نہیں دے رہا، لندن میں پریکٹس کرنے والے کوئینز کونسل کو بطور وکیل پیش کرنے کے اجازت مانگی گئی، بھارت کے چاروں اعتراضات بےبنیاد ہیں.

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بھارت کلبھوشن یادیو کی طرف سے کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہ رہا، وہ جان بوجھ کرکلبھوشن یادیو کیس سے بھاگ رہا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کو کلبھوشن کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ سیاسی طور پر معاملے کو دیکھنا چاہتا ہے، آرڈیننس میں 120 روز کے لیے توسیع کردی گئی.

اٹارنی جنرل نے بتایا آرڈیننس کے تحت کلبھوشن خود، قونصلر یا نمائندے کے ذریعے کارروائی کا حصہ بن سکتا ہے، آئینی طور پر ہماری ذمے داری ہے کہ فئیر ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں، اس لئے جب بھارت اور کلبھوشن نے وکیل کے لیے درخواست نہ دی تو سیکریٹری قانون نے قانونی تقاضا پورا کیا، میری استدعا ہے کہ کارروائی آگے بڑھانے کے لیے عدالت کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کرے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کلبھوشن کو فئیر ٹرائل کا پورا حق ملنا چاہیے، کیا یہ عدالت خود سے کارروائی آگے بڑھا سکتی ہے؟، کیا یہ عدالت اپنے طورپرکلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کر سکتی ہے؟ آپ اس نکتے پر بھی عدالت کی معاونت کریں، کہ بھارت یا کلبھوشن کی مرضی کے بغیر وکیل مقررکرنے کے کیا اثرات ہوں گے؟کیا یہ موثر نظر ثانی کے قانونی تقاضے پورے کرے گا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے عدالتی معاون حامد خان سے کہا کہ کلبھوشن عدالت آئے گا تو ہی ہم اس کے حق ذندگی کے تحفظ کا معاملہ دیکھ سکیں گے، آپ بھی عدالت کی معاونت کریں کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پرموثرعمل درآمد کو کیسے ممکن بنایا جائے، ہم چاہتے ہیں کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پراس کی روح کے مطابق عمل ہو،بھارت اورکلبھوشن وکیل نہیں کرتے تو کیس کیسے آگے بڑھائیں؟ کیس کی مزید سماعت 9 نومبرکو ہوگی۔