سپریم کورٹ نے نیویارک حملہ منصوبے کے ملزم طلحہ ہارون کی امریکہ حوالگی روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔
سپریم کورٹ میں نیویارک ٹائمزاسکوائر حملہ کیس کے ملزم طلحہ ہارون کی امریکہ حوالگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ملزم کو امریکا کے حوالے کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اورامریکہ کے درمیان ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ موجود ہے۔
جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کیا امریکہ کا رویہ بھی ہمارے ساتھ ویسا ہی ہے، جیسا ہمارا ان کے ساتھ ہے؟۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ امریکہ نے 2008 میں دو ملزمان فرید توکل اورفاروق توکل پاکستان کے حوالے کیے۔
طلحہ ہارون کے اہل خانہ کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ حسین حقانی کو حوالے کرنے کا حکم دے چکی ہے لیکن امریکہ نے حسین حقانی کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کیا ملزم کی امریکہ حوالگی کے لیے قانونی جواز موجود ہے، عملی طورپرامریکہ کیساتھ ملزمان کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں، جس معاہدے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ تقسیم سے قبل کا ہے جو پاکستان پرلازم کیسے ہو سکتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ طلحہ پرالزام ہے کہ اس نے امریکہ میں رہتے ہوئے حملوں کی سازش کی، وہ امریکی شہریت کا حامل بھی ہے،اسے 2016 میں گرفتارکیا گیا تھا۔
جسٹس منیب اخترنے کہا کہ دستاویزات سے واضح نہیں کہ حملے کے وقت طلحہ امریکہ میں موجود تھا، جو معاہدہ آپ دکھا رہے ہیں اس میں دہشتگردی کا جرم شامل نہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اب تو بات کرنے پر بھی دہشتگردی لگ جاتی ہے، طلحہ ہارون نے آخر کونسی دہشتگردی کردی، حکومت کہہ رہی ہے کہ امریکہ نے بندا مانگا ہے تو حوالے کردو۔
جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پاکستان کو بنانا ری پبلک نہ بنائیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پاکستان ڈمی ریاست نہیں۔
سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ کے متعلقہ حکام کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو بھی خود پیش ہونے کی ہدایت کی۔ عدالت نے سماعت پندرہ اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے طلحہ ہارون کی امریکہ حوالگی روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔