جرمن واچ نامی ادارے آب و ہوا میں تبدیلی سے متاثر ہونے والے فہرست میں پاکستان کو پہلے پانچ ممالک میں شامل کیا ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ نے گزشتہ 20 برس میں 7348 ایسی قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں جو موسمیاتی شدتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان میں 12 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ہلاکتوں میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔
پاکستان میں 2005 کے زلزلے، 2010 کے سیلاب اور 2015 کی ہیٹ ویو میں سب سے زیادہ افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے گزشتہ 20 برس میں 7,348 قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں اور اس میں 12 لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔
قدرتی آفات کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ موسمیاتی شدت اور آفات اکیسویں صدی میں جہنم کا منظرنامہ پیش کررہی ہیں۔ دوسری جانب سیاسی اور تجارتی رہنما موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا نہیں کررہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سیارہ زمین کروڑوں افراد کے لیے ناقابلِ رہائش ’جہنم‘ بن جائے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2000 سے 2019 تک پوری دنیا میں ماحول اور موسم سے متعلق 7,348 بڑے سانحات اور آفات رونما ہوئیں جن میں 12 لاکھ 30 ہزار افراد لقمہ اجل بنے لیکن چار ارب 20 کروڑ افراد بالراست متاثر ہوئے اور دنیا کو 2.97 ٹریلیئن ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ۔
دوسری جانب 1980 سے 1999 کے دوران آفات کا ریکارڈ تقریباً نصف رہا یعنی پوری دنیا میں 4,212 قدرتی آفات رونما ہوئیں اور 10 لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بنے اور سواتین ارب افراد بالراست متاثر ہوئے تھے جب کہ ان سانحات نے 1.63 ٹریلیئن ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی شدت سے وابستہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ 1980 سے 1999 تک کے مقابلے میں 2000 سے 2019 کے مقابلے میں ماحولیاتی اور موسمیاتی سانحے میں دوگنا اضافہ ہوا ہے جو ایک خوفناک امر ہے۔
30 صفحے کی اس رپورٹ کو ’دی ہیومن کوسٹ آف ڈزاسٹرز 2000، 2019‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں زلزلوں، سونامی، سیلاب، طوفان، برفانی تودے کے گرنے سمیت دیگر قدرتی آفات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کے ہولناک زلزلے کا ذکر کیا گیا ہے جو اکتوبر 2005 کو رونما ہوا تھا جس میں 70 ہزار سے ایک لاکھ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ 2010 میں پاکستان کے بہت بڑے سیلاب کا حوالہ بھی شامل ہے جس میں 1900 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے تھے جبکہ پاکستان کا 35 فیصد رقبہ کچھ دنوں کے لیے زیرِ آب آگیا تھا۔
اسی طرح 2015 کی ہیٹ ویو کا ذکر بھی شامل ہے جس میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی طرح حادثات سے براہِ راست یا بالواسطہ متاثر ہونے والے دس بڑے ممالک میں بھی پاکستان بہت نمایاں ہے۔
رپورٹ میں یہی کہا گیا ہے کہ 1980 سے 1999 میں سیلاب اور طوفان کی تعداد بالترتیب 1,389 سے بڑھ کر 3,254 اور 1,457 سے 2,034 ہوچکی ہے۔
اس رپورٹ میں خشک سالی، جنگلوں کی آگ اور درجہ حرارت بڑھنے کے بڑے واقعات بھی شامل ہیں اور ان میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ رپورٹ میں سونامی اور زلزلوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس موقع پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جرنل کی نمائندہ خاص برائے ردِ آفات میمی مائزوتوری نے کہا کہ ہم جانتے ہوئے تباہی کی جانب جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سول ادارے، عوامی صحت کے ادارے اور دیگر غیرسرکاری تنظیمیں موسمیاتی شدت کے خوفناک نتائج سے نبردآزما ہیں۔ انہوں نے کلائمٹ ایمرجنسی پر بھی زور دیا۔
اس تناظر میں پاکستان میں آب و ہوا میں تبدیلی اور اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔