فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے نیب ملزمان کی طویل حراست کا نوٹس لے لیا

سپریم کورٹ نے نیب ملزمان کی طویل حراست کا نوٹس لیتے ہوئے احتساب عدالت سے ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات مانگ لیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈائریکٹر فوڈ پنجاب محمد اجمل کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔ عدالت نے نیب ملزمان کی طویل حراست کا نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیب مقدمات میں ملزمان کو طویل عرصہ حراست میں رکھنا ناانصافی ہوگی۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ملزمان کے معاشرے یا ٹرائل پراثرانداز ہونے کا خطرہ ہو تو ہی گرفتار رکھا جا سکتا ہے، پرتشدد فوجداری اور وائٹ کالر کرائم کے ملزمان میں فرق کرنا ہوگا، نیب ملزمان کے کنڈکٹ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے احتساب عدالت لاہور سے ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات مانگتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آگاہ کیا جائے استغاثہ کے تمام 38 گواہان کے بیان کب تک ریکارڈ ہوں گے،عام طور پر نیب مقدمات میں تاخیر کیوں ہوتی ہے بتایا جائے، ملزمان کو گرفتار کرنے کے علاوہ اور بھی طریقے استعمال ہو سکتے ہیں، ان کے پاسپورٹ، بینک اکاؤنٹس اور جائیداد کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

ملزم کے وکیل عابد ساقی کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے مطابق ان کے پاس 80 ریفرنس زیرالتوا ہیں، اگست 2020 میں ملزم پرفرد جرم عائد کی گئی، ملزم 14 ماہ سے نیب حراست میں ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی  نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اگر 80 مقدمات ہیں تو اس کیس کی باری کب آئے گی؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے یقین دہانی کرائی کہ نیب کسی ریفرنس میں بھی تاخیر نہیں کے گا، لیکن صرف تاخیر پر ضمانتیں ہوئیں تو ہر ملزم ضمانت مانگے گا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر نیب کو عمل کرنا ہوگا، نیب کو روزانہ کی بنیاد پر سماعت پراعتراض ہے تو نظرثانی دائرکرے۔

نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کے فیصلے پرخوش ہیں، نیب بھی چاہتا ہے کہ مقدمات جلد ختم ہوں۔  سپریم کورٹ نے احتساب عدالت سے تاخیر کی وجہ اوررپورٹ مانگتے ہوئے کیس کی سماعت نومبر کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔