پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے کہاہے کہ حکمران ملک کوآئینی بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں،کراچی والوں پرملازمتوں کے دروازے بند ہیں،انقلاب کے ڈرامے نہیں چلیں گے اب کراچی حساب لے گا، کراچی والے کب تک تیسرے درجے کے شہری بن کر زندگی گزاریں گے لاہورر والوں کیلیے چمکتی ٹرین اورکراچی والوں کیلیے چنگچی دیکھتے ہیں تو خون جلتا ہے۔
باغ جناح کراچی میں جلسے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مصتفیٰ کمال نے کہا کہ چیف جسٹس ہماری تعداد 3 کروڑ بتاتے ہیں ، ادارے ہمیں ایک کروڑ گنتے ہیں، کراچی دنیا کا بدترین شہر ہوگیا ہے جہاں پانی اور سیوریج نہیں ہے،اب کراچی کو بدترین ٹرانسپورٹ کا شہر قرار دیا گیا ہے، وزیراعظم ابھی تک الیکشن مہم سے باہر نہیں نکلے،وہ ایک طرف ملک میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگردوسری طرف اپوزیشن جماعتوں سے بات کرنے کوتیارنہیں،یہ کیسی جمہوریت ہے،ایک دوسرے کوچور کہنا بند کرواورعوامی مسائل حل کرنے کے لیے ڈائیلاگ کرو،آج پاکستان میں جتنی مایوسی ہے ، اتنی مایوسی کبھی نہیں ہوئی ۔
مصتفیٰ کمال نے کہا کہ پہلے لوگ حکمرانوں سے مایوس ہوتے تھے تو اپوزیشن سے امید ہوتی تھی، اپوزیشن سے ناامید ہوتے تھے تو حکومت سے امید ہوتی تھی ۔ ایک ادارے سے مایوس ہوتے تھے تو دوسرے ادارے سے امید ہوتی تھی ۔ آج پاکستان کے عوام تمام سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن سے اور اداروں سے بھی مایوس ہیں۔
جلسے سے پاک سرزمین پارٹی کے صدرانیس قائمخانی، جنرل سیکرٹری پی ایس پی حسان صابر، سینئر وائس چیئرمین اشفاق منگی،۔ پی ایس پی کے وائس چیئرمین ارشد وہرا،۔ وائس چیئرمین پاکستان سرزمین پارٹی شبیر احمد قائمخانی،وائس چیئرمین ڈاکٹر حفیظ الدین شیخ، جوائنٹ سیکریٹری پی ایس پی بلقیس مختار، جوائنٹ سیکریٹری عطا اللہ کرد نے بھی خطاب کیا۔
مصطفی کمال نے کہاکہ آجپاکستان کے عوام تمام سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن سے اور اداروں سے بھی مایوس ہیں ۔ اب سے ڈھائی سال پہلے اس ملک پر حکومت آئی اور ڈھائی سال گزرجانے کے باوجود ان کو یقین نہیں آ رہا ہے کہ وہ اب ملک کے حکمران ہیں ۔ وہ حکومت کو الیکشن کمپین کی طرح چلا رہے ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتوں کا اتحاد بن گیا ہے انہوں نے الائنس بنا کر پی ڈی ایم نام رکھ دیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں عوام کے نام پر جلسے جلوس کر رہے ہییں ۔ ان 11 جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے یہاں عوام سے بات کی جائے جلسہ کیا جائے ۔ اسی مقام پر پاکستان کی 11 بڑی سیاسی جماعتیں آئیں اور اپنے سرکاری وسائل خرچ کیے ۔ان 11 جماعتوں نے 18 اکتوبر کو باغ جناح میںجلسہ کیا اس میں کوئی بھی کراچی کا نہیں تھا ، اس جلسی میں ملک بھر سے لوگوں کو بلایا گیا ۔ایک لفظ بھی پاکستان کے عوامی مسائل کے لیے نہیں بولا گیا ۔ ساری سیاسی جماعتوں نے ایک ہی مدعے پر بیان کیا کہ اس حکمران کو اتارو اور ہمیں حکمران بنا دو ۔ یہ تمام اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اپوزیشن ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس کو لیڈ کر رہے تھے ۔ 12 سال سے پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت کر رہی ہے اور وہ پی ڈی ایم کو چلا رہی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ آج آپ کے پاس ایک کونسلر بھی نہیں ہے ۔ آپ کیسے غریبوں کی بات کر رہے ہیں ۔ آپ کیسے لوگوں سے ووٹ مانگنے جائیں گے ۔ آپ نے کراچی میں جلسہ کرکے غلطی کردی ۔ آپ نے کراچی والوں سے جھوٹ بول کرغلطی کردی ۔ آپ یہ ڈرامہ پورے پاکستان میں کرتے لیکن کراچی میں کرکے آپ نے غلطی کردی ۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت نے ہمیں بچایا نہیں اس نے ہمیں تمہیں ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ہمیں عمران خان کی حکومت نے نہیںمارا ہے ، ہمیں تم نے مارا ہے کیونکہ تم 12 سال سے سندھ پر حکومت کر رہے ہو ۔ پچھلے 12 سالوں سے سندھمیں 70 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں ۔ وہ سندھمیں حکمرانی کر رہے ہیں ، اعلی عدالتوں میں کتے کو کاٹنے پر بات ہو رہی ہے ۔ یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے ۔ عدالتیں فیصلہ دے رہی ہیں کہ اگر کتے نے کسی کو کاٹا تو اس علاقے کے ڈپٹی کمشنر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ تمہارے اندر اتنی جرات ہے تو عوام کے حقوق کی بات کرو ۔ اب مصطفی کمال اور اس کے لوگوں کا داور ہے ۔ پی ایس پی والے کراچی کے وارث ہیں ۔ صوبے اور پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔ تمہارا دور ختم ہونے والا ہے ۔ کسی قوم کو توڑنا ہو تو اس سے امید چھین لو ۔
انہوں نے کہا کہ آج کسی حکمران کو یہ توفیق نہیں ہے کہ ان کی حکمرانی سے عوام کو کیا فائدہ ہے ۔ یہ حکمران صرف چور چور کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں عوام کا کسی کو خیال نہیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 10 سالہ دور میں این ایف سی اایوارڈ کے تحت 6694 ارب روپے دس سالوں میں ملے ہیں ۔ اس کراچی سے انہوں نے ان دس سالوں سے ٹیکس کی مد میں 1 ایک ارب روپے سے زائد وصول کیے ہیں ۔ 8 ہزار342 ارب روپے تہمارے نام پر اس پیپلز پارٹی کی حکومت کو ملے۔ سندھ حکومت 8 ہزار 342 ارب روپے پچھلے 10 سالوں میں کھا گئی ہے ۔ رکشے والوں کے اکائونٹ میں اربوں روپے نکل رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ تین سو ارب روپے سے میں نے کراچی میں سیکڑوں سڑکیں اور اندر پاسز اور فلائی اور بنائے ۔ میں سگنل فری کوریڈور بنائے ، 400 سے زائد پارکس بنائے ۔ پورے شہر کو روشن کیا ۔ مجھے صرف 300 ارب روپے خرچ کرنے پر دنیا بھر سے ایوارڈ ملے ۔ انہوں نے دس سالوں میں 8 ہزار 342 ارب خرچ کر دیے ۔
انہوں نے کہا کہ کراچی اب ان سے حساب لے گا ۔ چیخ چیخ کر تقریرکرنے سے حقائق کو کوئی نہیں چھپا سکتا ۔تم یہاں پر آکر غیربوں کی بات کرتے ہو ہمیں تم نے غریب کیا ۔ یہاں پر سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ تم نے کراچی کے پڑھے لکھے لوگوں کو نوکریاں نہیں دیں ۔ تم نے سارے صنعت کاروں کو تباہ کر دیا ۔ تم نے سڑکیں تباہ کیں ، تم نے کراچی کو پانی نہیں دیا ۔ تم نے یہاں کے صنعت کاروں کو ہجرت پر مجبور کیا ۔ یہاں کے نوجوان سے اب پرائیویٹ نوکری بھی چھینی جا رہی ہے ۔تم نے 12 سالوں سے ایک قطرہ پانی نہیں دیا۔ تم نے ٹینکر مافیا سے مل کر کراچی والوں کو ان کا ہی پانی بیچا ہے ۔ تم نے 12 سالوں نسے کراچی کو کوئی بس نہیں دی ۔
انہوں نے کہا کہ دنیا والے کہہ رہے ہیں کہ کراچی دنیا کی سب سے خراب ٹرانسپورٹ والا ملک ہے ۔ کراچی کا نام پورے دنیا میں خراب شہروں کی لسٹ میں شامل ہے ۔ کراچی دنیا کا بدترین شہر ہو گیا ہے ۔ آج سے 70 سال پہلے ٹرام چلتی تھی ۔آج لاہور میں جگمگاتی ہوئی اورینج ٹرین چل رہی ہے ۔ ہم اپنے پنجاب کے بھائیوں کی ترقی دیکھ کر خوش ہیں ۔ ہم کراچی والے بھی انسان ہیں فرشتے نہیں ہین ۔ ہم جب پنجاب میں چمچاتی ہوئی ٹرین اور بس دیکھتے ہیں تو ہم کراچی والوں کے دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کیا ہم پاکستانی نہیں۔ کیا کراچی والوں کو ہمیشہ حب الوطنی کا ثبوت دینا پڑے گا ۔
انہوں نے کہا کہ اے حکمرانوں بتا کراچی والے اپنے خون پسینے کی کمائی سے پاکستان نہیں چلا رہے ہیں ۔کراچی والوں کو زہر ملا پانی پلانا بند کرو ، کراچی میں کوئی نیا اسکول ، یونیورسٹی یا کوئی تعلیمی ادارہ تعمیر نہیں ہوا ہے ۔ کراچی میں ذرا سی بارش ہوتی ہے تو لوگ سڑکوں پر کرنٹ لگنے سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔
مصطفی کمال نے کہا کہ ہم کس سے فریاد کریں ۔ آج سے دو مہینے پہلے اس شہر کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ بارش کا پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے ۔بارشوں میں لوگ مر گئے ۔ لوگوں نے اپنے گھروں سے نکل مکانی کی ۔ اتنی تباہی اور بربادی ہوئی کہ چیف جسٹس کوعدالت لگانی پڑی اور آرمی چیف کو دو راتوں کے لیے کراچی میں رکنا پڑا ۔ عمران خان نے کراچی والوں کو 11 سو ارب روپے کا پیکیج کا اعلان کرکے چلے گئے ۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں جلسہ کرنے والوں نے کراچی کے حق میں کوئی بات نہیں کی ۔ اس شہر میں پھر بارش ہو گی اور اس شہر میں ماں کے بچے تڑپ تڑپ کے مریں گے ۔اے ملک چلانے والوں کراچی والوں کا فیصلہ کرو ۔ ہمیں ایک مرتبہ بتا دو کہ اس ملک میں کراچی میں رہنے والے تیسرے درجے کے شہری ہیں ۔ کراچی والوں کی گنتی کبھی صحیح نہیں ہوئی ۔ کوئی ادارہ ہماری صحیح گنتی بتانے کو تیار نہیں ہے ۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ ہم تین کروڑ ہیں اور پاکستان کے سرکاری ادارے کہتے ہیں ہم ایک کروڑ 60 ہیں ۔ ہم کتنے ہیں ، ہمیں بتا دو ۔ہم پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ہیں اور پاکستان چلانے والوں کی نسلیں ہیں ، کوئی ہماری صحیح گنتی کرنے کو تیار نہیں ہم کدھر جائیں ۔
انہوں نے کہا کہ آج سے چار سال پہلے ہم نے سچ بولنا شروع کیا تو اس شہر میں سچ بولنے کی سزا موت تھی ۔ ہم نے اپنے خاندانوں کی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان کی خاطر آئے ۔ ہم نے یہاں آکر بھائی کو بھائی سے ملایا ۔ ہمارے اپنوں نے ہمیں غدار کہا ۔میں ایم پی اے تھا میں میئر تھا ، میں سینیٹر تھا ۔ میں غدار نہیں تھا ۔ لیکن بہت سی مائیں اپنے بچوں کو اس ٹائم پر دفن کر چکی ہیں ۔ میں آج غدار بھی ہوں لیکن آج کسی ماں کا بیٹااور بہن کا بھائی ضائع نہیں ہوتا ۔ میں ایسی غداری کے لیے ہزاروں مرتبہ مرنے کو تیارہوں ۔ پاکستان چلانے والوں اب اس شہر کا پیمانہ لبریزہو گیا ہے ۔ اب تمہیں ہمارا فیصلہ کرنا پڑے گا ۔اس امن کو ہماری کمزوری نہ سمجھو ۔ اس خاموش انقلاب کو سنو ۔ یہ میری ماں بہنوں کی اس موجودگی کو محسوس کرو ۔ یہ میرے بزرگوں کا چل کرآنا محسوس کرو ۔ ان نوجوانوں کا ولولہ محسوس کرو ۔ یہ کوئی سرکاری پارٹی کا جلسہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کے رہنماں کو بلاول بھٹو سے پوچھنا چاہئے تھا کہ تمہارے صوبے میں کتے کے کاٹے سے لوگ مر رہے ہیں ۔کراچی میں 64 لوگ مر گئے ہیں ۔ ان کو مریم نواز سے پوچھنا چاہیے تھا کہ بی آر ٹی لائن اور گرین بنوا کر گئے اس پر زنگ لگ رہا ہے ۔ ہمارے نصیب میں وہی چنگی رکشے اور پرانی بسیں ہیں ۔ تم زبان کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کر رہے ہو ۔ تم نے کراچی کے سسٹم کو تباہ کر دیا ہے ۔ اس جلسے میں پورے سندھ کے محروم لوگوں نے شرکت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے جلسوںمیں ملک کے اداروں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔لاپتہ لوگوں کا مسئلہ پورے پاکستان میں ہے ۔ بلوچستان کے جلسے کا منظر دیکھ کر میرا دل دہل گیا ۔ لاپتہ لوگوں کے اہل خانہ کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں ۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز آپ نے اپنے والد کے دور میں ان لاپتہ لوگوں کا مسئلہ حل کیوں نہیں کیا ۔ پوائنٹ اسکورنگ کرنا بہت آسان ہے ۔ میرے پاس ساڑھے 550 سے زائد لاپتہ لوگوں کی مائیں آئیں ۔ میں نے ان لاپتہ لوگوں کا مقدمہ لڑا ۔پاکستان کے اداروں کو برا بننے کا کوئی شوق نہیں ہے ۔ ان لاپتہ لوگوں نے کسی کے کہنے پر غلط راستہ اختیار کر لیا تھا ۔ میں نے بہت سے لاپتہ ماں کے بچے بازیاب کرا کے ان کی ماں کے پاس پہنچائے ۔ ہم نے لاپتہ لوگوںکو میڈیا میں خبریں نہیں چلوائیں ۔ ہم پاکستان کی خدمت کرنے آئے ہیں ۔ ان اداروں کو آپ نے پہلے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور اب ان اداروں کو کوئی دوسرا استعمال کر رہا ہے تو آپ ان اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہین ۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آپ حکومت کر رہے ہو الیکشن کمپین نہیں چلا رہے ۔ آپ پاکستان کے حکمران ہیں ۔ آپ جب یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن والے چور ہیں میں ان سے بات نہیں کروں گا ۔ آپ نے جس دن یہ اعلان کیا کہ میں ان سے بات نہیں کروں گا آپ نے اس ملک میں سیاسی بحران پیدا کر دیا ۔ آپ کو آئین کے مطابق اپوزیشن سے مشورہ کرنا ہے ۔ آپ ان سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔اس ملک میں آپ نے سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے ۔ آپ نے نواز شریف کے جانے کے بعد ان پر تنقید شروع کر دی ۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے ۔ غریب کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی ہے ۔ معیشت تباہ ہو گئی ہے ۔ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ اس ملک کے حکمرانوںکو عوام کی کوئی پرواہ نہیں ۔ اس ملک میں معصوم بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا جا رہا ہے ، اس کے ذمہ داران حکمران ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ مودی کشمیریوں کا قاتل ہے آپ سے بات کرنے کے لیے تیار ہو لیکن اپنے ملک کی اپوزیشن کی جماعتوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہو ۔ کیا یہ اپوزیشن والے ملک کے وفادار نہیں ہین۔ یہ جیسی بھی حکومت ہے اور جیسی بھی ہے اپوزیشن ہے ۔ عمران خان جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن وہ آئین پر عمل نہیں کر رہے ۔ بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دیئے جا رہے ۔بلوچستان میں سرکاری افسروں سے بلدیاتی ادارے چلوائے جا رہے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے ۔ جب بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں ملیں گے لوگوں کی قسمت نہیں بدلے گی ۔ آپ کو اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا ہوں گے ۔
انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے کہا کہ آ آج مل کر بات کرتے ہیں ۔ جرگہ کرتے ہیں ۔ کن اصولوں پر پاکستان کو چلانا ہے اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔پاکستان کو بچانے کے لیے ایک دوسرے سے مل کر کر بات کرنے کی ابتدا کرتے ہیں ۔ کراچی نے آج بتا دیا ہے کہ وہ پاکستان کو لیڈ کرے گا ۔ کراچی میں صوبائی اسمبلی کی 55 اور قومی اسمبلی کی 40 سیٹیں کرنا ہو گی ۔ اب کراچی والوں کے خلاف سازشیں بند کر دو۔ اب پی ایس پی کراچی والوں کے ساتھ کھڑی ۔ یہاں آنے والے سرکاری ملازمین نہیں ہیں ۔ کراچی پاکستان کو سیاسی طور پر لیڈ کرنے کے لیے تیار ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس نظام سے ملک نہیں چلے گا اس کو ہمیں بدلنا پڑے گا ۔ اس سے پہلے کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اے حکمرانوں اس ملک میں ریفارمز کرتے ہیں ، اپنی عدالتوں ، سرکاری اداروں ، اسپتالوں ، پولیس والوں کا ریفارمز کرتے ہیں ۔ اس ملک میں ریفارمز کرکے نئی شروعات کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنا بند کردو ۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج پاک سرزمین پارٹی کراچی سے نکل کرگلگت بلتستان تک پہنچ گئی ہے ۔ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کے رہنما گلگت بلتستان پہنچے ہوئے ہیں ۔ میں گلگت کے عوام سے کہتا ہوں کہ پاک سرزمین پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیں ۔