سندھ ہائیکورٹ نے اسلام قبول کرکے پسند کی شادی کرنے والی لڑکی آرزو فاطمہ کو دارالامان بھیجنے کا حکم دیدیا اورتفتیشی افسرکو چائلڈ میرج ایکٹ کی روشنی میں تحقیقات کاحکم دیدیا،عدالت نے کہاکہ کم عمری کی شادی کے قانون کی روشنی میں کارروائی کی جائے ۔
جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو آرزو فاطمہ کیس کی سماعت ہوئی۔ درخواستگزار آرزو کو پیش کیا گیا۔ عدالت نے آرزو سے پھراستفسار کیا آپ پر کوئی دبائو تو نہیں؟ آرزو نے بیان دیا کہ نہیں مجھ پرکوئی دباؤ نہیں اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اورشادی کی۔
آرزو کے وکیل نے موقف دیا کہ لڑکی بار بار کہہ چکی ہے اس پر کوئی دباؤ نہیں۔ آرزو کی عمر کے تعین سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔ 5 رکنی میڈیکل بورڈ نے آرزو کی عمر 14 سے 15 سال قرار دے دی۔
وکیل نے موقف دیا کہ 14 سال کی لڑکی پسند کی شادی کرسکتی ہے یا نہیں؟ ہم اس پوائنٹ پر دلائل دیں گے۔ آرزو کی جانب سے نئے وکیل نے وکالت نامہ جمع کرانے پراصرارکیا جس پرعدالت نے ریمارکس دیے اس کیس میں پہلے سے وکیل موجود ہے۔
آرزو کے وکیل نے موقف دیا کہ لڑکی بالغ ہے تو پسند کی شادی کرسکتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے لڑکی نے واضح کہا ہے کہ اس نے مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔
میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق آرزو کی عمر چودہ ، پندرہ سال ہے۔ نادرا دستاویزات کے مطابق آرزو کی عمر تیرہ سال ہے۔ بادی النظر میں آرزو پسند کی شادی نہیں کرسکتی تھی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہیں یا دارالامان؟ آرزو کمرہ عدالت میں رو پڑی اوراس نے کہا کہ میں شوہرکے ساتھ جاؤں گی ورنہ مر جاؤں گی۔
عدالت نے تفتیشی افسرکو چائلڈ میرج ایکٹ کی روشنی میں تحقیقات کا حکم دیدیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کم عمری کی شادی کے قانون کی روشنی میں کارروائی کی جائے۔ عدالت نے آرزو کو واپس دارالامان منتقل کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے حکم دیا آرزو کو ان افراد سے ملاقات کی اجازت دی جائے جن سے وہ خود ملنا چاہے۔ عدالت نے سماعت دو ہفتے کیلیے ملتوی کردی۔