انسانیت کی خدمت کے نام پرعطیہ کئے جانے والے اعضا بھی اوپن مارکیٹ میں فروخت کرتے- فائل فوٹو
انسانیت کی خدمت کے نام پرعطیہ کئے جانے والے اعضا بھی اوپن مارکیٹ میں فروخت کرتے- فائل فوٹو

انسانی اعضا’’کاشت‘‘ کرنے والے چینی ڈاکٹرزگرفتار

رپورٹ :نذرالاسلام چوہدری
چینی حکومت نے دو سفاک ڈاکٹروں کو جیل بھیج دیا۔سینئر سرجنز پرانسانی اعضا کی لیبارٹری میں ’’کاشت‘‘ اورانسانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کا الزام ثابت ہوگیا۔

امریکی جریدے نیویارک پوسٹ خے مطابق چین کے صوبے انہوئی میں یانگ سوزون اور ساتھی ڈاکٹر سمیت ان کے گینگ پر انسانی اعضا کی غیرقانونی تجارت کی تفتیش کی گئی تھی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ ڈاکٹرز روڈ حادثات میں مرنے والے افراد کے خاندانوں تک فوری رسائی حاصل کرتے۔ اوران کی آخری رسومات سے قبل ہی متاثرہ خاندانوں کو مناسب معاوضہ یا خدا ترسی کی بنیاد پر اپنے مرنے والے ارکان کیلیے اعضا کو عطیہ کر دینے پر رضامند کرلیتے تھے۔گروہ کے افراد کی جانب سے کہا جاتا تھا کہ اگر وہ (خاندان) انسانی اعضا عطیہ کریں گے تو اس فعل سے انسانیت کا بھلا ہوجائے گا۔ ان اعضا کی پیوند کاری سے ان کے مریضوں کی جانیں بچ جائیں گی۔

ایک چینی تفتیش کارکے مطابق طبیبوں کے بہروپ میں موجود انسانی اعضا کے یہ تاجر اپنی موبائل اور لیبارٹریز میں ان لاشوں کو لیجا کر تمام اعضا نکال لیتے تھے اور نصف اعضا کو لیبارٹریزمیں’’اُگا‘‘ لیتے تھے اور ان کو اوپن مارکیٹ میں اعضا کی پیوند کاری کے منتظر مریضوں کو لگا دیا جاتا تھا۔ جبکہ 50فیصد مرنے والوں کے اعضا بشمول گردوں، قرنیہ اور جگر نکال کر اپنے کلائنٹس کو لگا دیا کرتے تھے اور ان سے لاکھوں ڈالر وصول کرلیتے تھے۔

تفتیش میں اس بات کا بھی علم ہوا ہے کہ ان تاجر طبیبوں نے انسانی اعضا کی وصولی کیلیے متوفیان کے خاندانوں کو قانونی فارمز دے کراعضا کے عطیہ کا جو حلف نامہ لیا تھا وہ جعلی فارمز تھے، جن کی بنیاد پر متعلقہ خاندانوں کو مطمئن کیا جاتا تھا۔ لیکن جب اپنی والدہ کے اعضا عطیہ کرنے والے ایک شخص نے اپنی تشفی و تصدیق کیلیے ’’چائنا آرگن ڈونیشن ایڈمنسٹریٹو سینٹر، بیجنگ‘‘ سے رابطہ کیا اور وہاں سے فارم/ رجسٹریشن کا نمبر طلب کیا، تو معلوم ہوا کہ ان کے فارم پر ایسا کوئی نمبر موجود نہیں تھا جس پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا گیا اور انسانی اعضا کی تجارت اور کاشت کا رازکھل گیا۔

چینی میڈیا رپورٹس کے مطابق اعضا کے تاجر ڈاکٹرز کی گرفتاری، غیر قانونی آپریشن، اعضا کاشت کی موبائل لیبارٹریز کی برآمدگی اور مریضوں اور متوفیان کے اہل خانہ کے بیانات کو دیکھتے ہوئے دونوں اعضا فروش ڈاکٹرز اوران کے عملہ کو اپنا جرم قبول کرنا پڑا۔ دونوں ڈاکٹرز کو بھاری جرمانہ عائد کرکے جیل بھیجا گیا ہے اوران کے خلاف مقدمات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے جس پر چینی پراسکیوٹرز کا کہنا ہے کہ دونوں طبیبوں کوان کے گھناؤنے کاموں کی انجام دہی پر جرم ثابت ہونے کے بعد متعلقہ عدالتوں کی جانب سے سزائے موت دی جاسکتی ہے۔

انہوئی صوبہ کے پراسکیوٹرز کا کہنا ہے کہ 2017-18ء کی جامع تحقیقات کے مطابق ان ڈاکٹرز نے ایک درجن چینی خاندانوں تک سریع الحرکت رسائی حاصل کی جن کے گھر والے ٹریفک ایکسیڈنٹس میں ہلاک ہوئے تھے اور ان تمام فیملی ممبران کی لاشیں مناسب معاوضہ کی ادائیگی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حاصل کرکے اعضا کو نا صرف اپنی جدید ترین اعضا اُگانے کی لیبارٹریز رکھا گیا اور باقی ماندہ کار آمد انسانی اعضا بشمول گردوں (kidneys) کو دیگر مریضوں کو فوری طور پر ٹرانس پلانٹ کردیا گیا، جس کیلئے ان مریضوں سے ایڈوانس بھاری رقوم ڈالر کی صورت میں حاصل کی جاچکی تھیں۔ چینی میڈیا رپورٹس کے مطابق Huaiyuan کاؤنٹی پیپلز اسپتال کے پروفیسر یانگ سوزون اور ان کی ٹیم پر تمام الزامات ثابت ہوگئے ہیں اور اس وقت وہ جیل میں قید ہیں۔

واضح رہے کہ چین میں اعضا کی غیر قانونی یا غیر سرکاری ٹرانس پلانٹیشن، اعضا اُگانے یا مریضوں یا متوفیوں کے اعضا عطیہ کرنے پر پابندی ہے، جس کی وجہ سے 2015ء کے بعد سے چین بھر میںاعضا عطیہ کرنے کا رجحان کم ہوچکا ہے اورایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت لکھوکھا چینی مریضوں کو ’’آرگن ٹرانس پلانٹیشن‘‘ کی ضرورت ہے اور چینی معاشرے میں اعضا کی بڑھتی ہوئی مانگ میں تیز تر اضافہ نے اعضا کی غیرقانونی مارکیٹ کو جنم اور خرید و فروخت کو بڑھاوا دیدیا ہے۔

سماجی رابطوں کی سائٹس پر اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک چینی نوجوان نے بتایا کہ اس نے اپنا گردہ سات ہزار امریکی ڈالر میں فروخت کردیا ہے تاکہ وہ اپنے ذمے قرضے کی ادائیگی کر سکے۔ اس نوجوان نے خفیہ طریق پر چلنے والے غیر قانونی اعضا بازارکے بارے میں بتایا کہ کس طرح اعضا کی تجارت کرنے والے ڈاکٹرز ان کے معاونین اعضا فروشی کیلیے’’آن لائن‘‘ بھی سرگرم عمل ہیں۔ اس نوجوان نے اپنا تجربہ شیئر کیا اور بتایا کہ ایجنٹ سے گفتگو اور 3,500 ڈالرز کی پیشگی ادائیگی کے بعد انہوں نے مجھے ایک موبائل لیبارٹری میں بھیجا، جہاں میرے خون کا ٹیسٹ اور ضروری طبی جانچ کی گئی اور اس کے بعد مجھے کئی ہفتے تک ایک ہوٹل میں قید رکھا گیا جس دوران اعضا/ گردے کا غیرقانونی کاروبار کرنے والی مافیا نے مریض کی تلاش مکمل کی اورپھرایک دن مجھے ایک گاڑی لینے آئی۔ ڈرائیورنے ہدایت دی کہ میں آنکھوں پر پٹی باندھ لوں، پھر نصف گھنٹے کے سفر کے بعد میری آنکھوں سے پٹی اتاری گئی تو مجھے پتا چلا کہ وہ کوئی فارم ہاؤس تھا جس کے اندر ایک پورا سرجیکل آپریشن تھیٹر موجود تھا اور باقاعدہ ڈاکٹرز اور نرسیں بھی تھے۔ یہاں ڈاکٹرز نے مجھے بے ہوش کیا اور میرا گردہ نکال کر متعلقہ مریض کو لگا دیا۔

اس نوجوان نے لکھا کہ ان کے گردے کے خریدار کو زندگی درکار تھی اور مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔ دونوں کا کام بن گیا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ چین میں ’’انسانی اعضا کی تجارت‘‘ غیر قانونی سطح پر بڑھ رہی ہے، لیکن چینی حکومت اس کی پُر زور تردید کرتی ہے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ چین ہی میں مقامی و عالمی سائنس دانوں نے پہلی بار ’’انسان اور بندر‘‘ کی ہائبرائڈ یا مخلوط نسل کو لیباٹری میں تخلیق کر لیا ہے، جس کا مقصد انسانی جانیں بچانے کیلئے ہائبرائڈ جانوروں کے ذریعے انسانی اعضا تخلیق کرنا ہے، جنہیں انسانی جانیں بچانے کیلئے ٹرانس پلانٹس کیا جا سکے گا۔

اس تحقیق میں شامل ٹیم کا کہنا ہے انہوں نے بندر کے ’’ایم بریو‘‘ میں انسانی اسٹیم سیلز داخل کئے تاکہ اس سے انسانی ٹشوز بنائے جا سکیں۔ چینی تحقیق کے مطابق اس کام میں ہسپانوی سائنس دان حصہ لے رہے ہیں جو اسپین میں ہائبرائڈ جانوروں کی تخلیق پر عائد پابندیوں کے باعث چین میں تجربات کر رہے ہیں اور ان سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انسان اور بندر کے خلیوں کے ملاپ سے بننے والے مخلوط بچے کو دنیا میں لایا جا سکتا تھا لیکن ایسا بوجوہ نہیں کیا گیا۔