احمد نجیب زادے
حالیہ سائنسی و طبی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک اور عام پلاسٹک کا انسانی زندگی میں استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ہر اوسط عمر کا انسان اپنی ساٹھ سے 80 سالہ حیات میں دیگر غذاؤں کے ساتھ ساتھ کم از کم 20 کلو گرام مائیکرو پلاسٹک بھی کھا جاتا ہے۔
انسانی زندگی میں مائیکرو پلاسٹک کے عمل دخل کے بارے میں طبی و سائنسی محقق ڈاکٹر روتھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک اوسط عمر کا انسان اپنی زندگی میں کم و بیش بیس کلو گرام تک پلاسٹک کھا جاتا ہے اور اس کو پتا بھی نہیں چلتا۔
واضح رہے کہ مائیکرو پلاسٹک کی شکل میں موجود پلاسٹک اس وقت انسانوں کی روز مرہ زندگی کا جُز بن چکا ہے۔ حتیٰ کہ یہ مائیکرو پلاسٹک ٹوتھ پیسٹ اور ڈسپوزبل برتنوں جیسی عام استعمال کی اشیا میں بھی پایا جاتا ہے۔
سائنسی محققین کا کہنا ہے کہ جدید دور کی پُرآسائش اور تیز رفتار زندگی میں ہم سب بظاہر نہ کھانے کے باوجود اس لیے بہت سارا مائیکرو پلاسٹک بھی کھا پی جاتے ہیں کہ اشیائے ضرورت اور اشیائے خوراک کی تیاری، خریداری اور استعمال میں ہر جگہ پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال کیا جانا عام بن چکا ہے۔
سائنسی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ جس طرح قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے، اسی طرح روزانہ بنیادوں پراستعمال کیے جانے والے اس مائیکرو پلاسٹک یا پلاسٹک کے مائیکرو اسکوپک ذرات بھی جسم میں پائے جاتے ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ انٹرنیشنل جیسے عالمی ریسرچ ادارے کی گزشتہ برس مکمل کی گئی ایک مفصل تحقیق کے بعد کہا گیا تھا کہ یہ عین ممکن ہے کہ عام انسانوں میں سے ہر فرد ہر ہفتہ کی بنیاد پرایک کریڈٹ کارڈ کے برابر پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات بہت اہم اور بہت زیادہ ہیں، جن میں پینے کے پانی میں شامل ہوجانے والے پلاسٹک کے ذرات سے لیکر شیل فش جیسی انسانی خوراک تک سب کچھ شامل ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے شیل فش کی مثال اس لئے بھی دی گئی کہ پانی میں پایا جانے والا مائیکرو پلاسٹک اس مچھلی کے جسم میں بھی پہنچ جاتا ہے اور جب انسان یہ مچھلی کھاتا ہے، تو اس کے نظام ہضم میں موجود پلاسٹک کے ذرات بھی انسانی معدے میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دیگر اقسام کی ان مچھلیوں کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جن کی غذا میں پلاسٹک یا مائیکرو پلاسٹک شامل ہے۔ پوری دنیا کے ایک عام انسان کی اوسط عمراگر80 برس تصور کی جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ شعوری طور پرغذا میں پلاسٹک نہ کھانے کے باوجود ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں کم از کم بیس کلو گرام یا 44 پاؤنڈ پلاسٹک کھا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ہر سال پلاسٹک کا کئی ملین ٹن کوڑا عالمی سمندروں میں بھی پہنچ جاتا ہے اور گزشتہ نصف صدی کے دوران سستی اور صرف ایک بار استعمال میں آنے والی اشیائے صرف کی تیاری کیلئے پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال دونوں کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
محققین کی رائے میں پلاسٹک وقت کے ساتھ گل سڑ کر پھلوں اور سبزیوں کی طرح زمین اور فطرت کا حصہ نہیں بن سکتا اس لئے کہ اس کی مادی حالت صدیوں تک برقرار رہ سکتی ہے۔ ڈاکٹر روتھ کا کہنا ہے کہ مائیکرو پلاسٹ اور اس کی مصنوعہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ننھے ننھے ذرات میں بھی تقسیم ہو جاتا ہے، اور یہی ٹکڑے بعد میں زمینی اور سمندری علاقوں میں پھیل جانے کے علاوہ فضا میں بھی پہنچ جاتے ہیں اور انسانی فوڈ چین میں بتدریج شامل ہو جاتے ہیں۔
اپنی تحقیق میں برطانیہ کی ساؤتھ مپٹن یونیورسٹی کے ماحولیاتی ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک انسانی زندگی کا جز بن چکا ہے، اس سلسلہ میں اسی یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر میلکم ہڈسن انسانی زندگی میں پلاسٹک کی اہمیت اور اثرات کے موضوع پر طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ پروفیسر ہڈسن کہتے ہیں کہ معاملہ صرف مائیکرو پلاسٹک ذرات ہی کا نہیں بلکہ ان سے بھی چھوٹے وہ خورد بینی ذرات بھی اسی قبیل اور بحث میں شامل ہیں، جن کو’’نینو پلاسٹک‘‘ کہا جاتا ہے۔ پلاسٹک کی یہ قبیل نینو پلاسٹک اس لئے بھی دیگر اقسام کے مقابلہ میں مزید مضر ہے کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیلتا ہے اور وہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے، جہاں مائیکرو پلاسٹک نہیں پہنچتا۔
میڈیا سے گفتگو میں پروفیسر ہڈسن کا کہنا ہے کہ یہ نینو پلاسٹک ذرات اتنے خطرناک اور ایسے بہت چھوٹے چھوٹے ٹائم بموں کی طرح ہوتے ہیں، جو انسانی جسم کے دورانِ خون اور دیگر نظاموں کے ذریعے مختلف اعضا تک پہنچ کر وہاں جمع بھی ہو سکتے ہیں اور سنگین طبی مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔ چند ماہ قبل ہی عالمی ادارہ صحت سمیت کچھ ممالک کی محقق تنظیموں کی جانب سے یہ ریسرچ سامنے آئی کہ سالانہ دنیا کا ہر بالغ شخص کم و بیش پچاس ہزار پلاسٹک ذرات نگل رہا ہے۔
کینیڈین ماہرین کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ انسان نا صرف پلاسٹک ذرات کو بطور غذا نگل رہا ہے بلکہ وہ سانس لینے کے دوران بھی پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات کو اپنے جسم میں داخل کر رہا ہے۔
کینیڈین محققین کی مرتبہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زمین کی ایسی کوئی جگہ نہیں ہیں جہاں پلاسٹک ذرات موجود نہ ہوں، سمندر کی تہہ اور لہروں سے لے کر ساحل سمندر کی ریت، پانی کی بوتل سے لے کر ڈسپوزبل کھانے کے پیکٹوں اور راستوں پر پلاسٹک یا اس کے ذرات موجود ہوتے ہیں، جو ہر ممکن طریقے سے انسانی معدے یا جسم میں جا رہے ہیں۔
امریکی و جرمن ماہرین نے ماضی میں کی جانے والی کئی ایک تحقیقات کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد بتایا تھا کہ زیادہ تر انسان مچھلی، پانی، دودھ، بیئر، پلاسٹک مصنوعات میں پیک نمک، چینی اور مصالحہ جات استعمال کرنے کے دوران پلاسٹک کے ذرات اپنے جسم میں داخل کر رہا ہے۔
اسی منظر نامہ میں عالمی ادارہ صحت نے بھی مائیکروپلاسٹک پرحال ہی میں ایک مفصل رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ ہوا، پینے کے پانی اورغذائی اشیا میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی سے ماحولیات اور انسانوں کی صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ پلاسٹک کے استعمال کو ترک کرکے دنیا کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے، اگرغذائی اشیا اور ہوا میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی اسی طرح بڑھتی رہی تو آگے چل کردنیا کو سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا ہے کہ اس وقت انسانوں کی جانب سے پلاسٹک کے ذرات کو نگلنے سے صحت کے کوئی فوری مسائل پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔ لیکن اس کے مضراثرات آگے چل کر ظاہر ہوسکتے ہیں۔