رپورٹ:علی مسعود اعظمی
اسپیس سیکورٹی پروگرام کے سابق اسرائیلی ڈائریکٹرنے امریکیوں کی خلائی مخلوق سے ’’دوستی‘‘ کا دعویٰ کردیا ہے اورکہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم کے تحت امریکی اسپیس پروگرام ناسا کی جانب سے خلائی مخلوق کی منتظمہ سے ایک مشترکہ خلائی تحقیقی اسٹیشن کی تعمیر کا معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔
حیران کن انٹرویو اوراپنی کتاب میں اسرائیلی اسپیس ڈائریکٹر ہیوم ایشاد کا دعویٰ ہے کہ امریکیوں اور خلائی مخلوق کی اس قدر ساجھے داری ہوچکی ہے کہ ایک موقع پرامریکی حکومت اور خلائی مخلوق کی فیڈریشن کے مابین ’’تعاون کے معاہدوں‘‘ میں سرخ سیارے مریخ کی ناقابل رسائی اتھاہ گہرائیوں میں قائم ایک ریسرچ بیس بھی شامل تھا، جو خلائی مخلوق کی ملکیت ہے اوراسی خلائی بیس پر امریکی خلابازوں اور خلائی مخلوق کے نمائندوں کے درمیان ’’ملاقاتیں‘‘ ہوتی ہیں۔
اسپیس سیکیورٹی کے اسرائیلی پروگرام کے سابق ڈائریکٹرایشاد نے اپنی کتاب میں یہ بھی دعویٰ ہے کہ خلائی مخلوق نے ’’ایٹمی ہولوکاسٹ‘‘ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور پھر مزید کہا کہ ہم خلائی مخلوق کے تعاون سے زمین پر کسی ممکنہ تباہی کے برپا ہونے کی صورت میں سرخ سیارے کے اس اسٹیشن میں جاکر ’’مین اِن بلیک‘‘ کی طرز پر زندگی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
صہیونی میڈیا کی بنا ثبوت و شواہد رپورٹس کے مطابق ہیوم ایشاد نے اصرارکیا ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے خلائی مخلوق کی منتظم کہکشانی فیڈریشن کے وجود کا انکشاف معاہدے کی پاسداری کی وجہ سے نہیں کیا ہے، کیونکہ انہیں اس خلائی مخلوق کی فیڈریشن نے ایسا کرنے سے روکا ہوا ہے۔ لیکن موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ اگر خلائی مخلوق اپنے معاہدہ کو چھپانے کیلیے اس قدر مُصر تھی تو اسرائیلیوں نے جو یہ انکشاف کیا ہے اس پر خلائی مخلوق یا امریکیوں کا کیا موقف اور رد عمل ہوسکتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق خفیہ معاہدہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ایک خاص وقت تک خلائی مخلوق اپنی ماہیت، زندگی اور نسل کے بارے میں معلومات بنی نوع انسان سے چھپانا چاہتی ہے اور با الفاظ دیگرخلائی مخلوق ہماری دنیا کو وسیع پیمانے پر خوف و ہراس سے بچانے کی خواہاں ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ انسانیت کو ابھی مزید ارتقا اور اس مرحلہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے جہاں ہم خلائی مخلوق او اسپیس شپ کی حقیقت کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں۔
ادھر خلائی تحقیق کے اعلیٰ اسرائیلی سابق افسر ایشاد کے اس دعوے پر ناسا خاموش ہے۔ لیکن ماضی میں خلائی تحقیق کے ادارے اور عسکری چھٹی کمانڈ کے قیام پر ناسا کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس ایجنسی کے قیام کا ایک اہم مقصد وسیع کائنات میں زندگی کی تلاش تھا۔ تاہم وہ ابھی تک اس کے آثار تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اگرچہ ہمیں ابھی بھی دنیا سے باہر زندگی سے متعلق کوئی آثار نہیں مل پائے ہیں، لیکن ناسا نظام شمسی اور اس سے باہر بھی ان بنیادی سوالات کے جوابات سمجھنے کیلئے مصروف ہے کہ کیا انسان کائنات میں اکیلی مخلوق ہے؟۔
اسرائیلی میڈیا کو دیئے جانیوالے ایک ناقابل یقین انٹرویو کے مندرجات میں صہیونی ریاست کی خلائی سیکیورٹی پروگرام کے سابق ڈائریکٹر ہیوم ایشاد نے دلچسپ دعویٰ کیا ہے خلائی مخلوق ہمارے درمیان موجود ہیں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اس بات کا علم ہے لیکن انہوں نے کہکشائی فیڈریشن یا خلائی مخلوق کا کنٹرول سنبھالنے والے ادارے کیساتھ ایک ’’تحریری معاہدے‘‘ کے تحت ان کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، حالانکہ ان کو خلائی مخلوق کی امریکہ اور اس دنیا میں آمد و رفت اور پروگرامز کا یقین ہے اور اسی یقین کی بنیاد پر انہوں نے 2019ء میں امریکی افواج کی چھٹی کمانڈ یعنی اسپیس کمانڈ کا افتتاح کیا تھا اور اس کو باقاعدہ امریکی عساکر یعنی میرینز، بحریہ، فضائیہ سمیت خلائی افواج کا نام اور پرچم عطا کیا تھا۔
اس دلچسپ رپورٹ کے تناظر میں برطانوی لکھاری کیٹ انگ کی ایک مرتب شدہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کے سابق خلائی سیکورٹی چیف کے مطابق امریکی صدر کے دور صدارت کا سب سے بڑا راز خلائی مخلوق سے رابطوں کا ہے۔
اسپیس سیکیورٹی پروگرام کے سابق اسرائیلی ڈائریکٹر کے انٹرویو بیانیہ کے حوالہ سے اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت کئی غیر معمولی دعوؤں سے بھری پڑی ہے جن میں سے بہت سے دعوے امریکی کمانڈر اِن چیف کے اپنے ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ دعوے ایسے بھی ہیں جن کا اس دنیا سے بھی دور پرے کا واسطہ ہے۔
اسرائیلی اسپیس سیکورٹی پروگرام کے سابق اسرائیلی ڈائریکٹر ہیوم ایشاد نے ربرانی زبان کے معروف اسرائیلی جریدے ’’یعودوت اہرونوت‘‘ کو ایک تازہ انٹرویو میں کہا کہ امریکی حکومت کا خلائی مخلوق کی منتظم ’’کہکشائی فیڈریشن‘‘ کے ساتھ ایک دوطرفہ ایگری منٹ ہے، لیکن صدر ٹرمپ اس حقیقت کو کبھی بھی خود سے افشا نہیں کریں گے کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ انسانیت یہ سننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ کسی کو بتائے بغیر امریکی حکومت اور اسپیس پروگرام نے خلائی مخلوق سے یکطرفہ معاہدہ کرلیا ہے۔
اسرائیلی جریدے نے ہیوم ایشاد کے ایک حالیہ انٹرویوکا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بظاہر یہ امریکی معاہدہ خلائی مخلوق کی فیڈریشن کو ہماری انسانی کائنات کے تانے بانے کی تحقیقات اور اسے سمجھنے کی اجازت دینے کیلئے کیا گیا تھا، جس میں مبینہ طور پر امریکی اسپس ریسرچ پروگرامرز اور منتظمین نے خلائی مخلوق کو زمین کے سفر اور قیام اور ریسرچ کی اجازت دی تھی اور ان کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان خلائی مخلوق یا الینز کے سفر میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی عہدیدار کے اس دعوے کے بعد کئی سوالات کی طرح یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ امریکہ کا خلائی مخلوق سے معاہدہ کس زبان میں کیا گیا ہے؟ کیا امریکیوں کو خلائی مخلوق کی زبان آتی ہے یا خلائی مخلوق انگریزی سمجھتی ہے اور اس معاہدے پر کس نے دستخط کئے تھے؟ خود اسرائیلی میڈیا کا ماننا ہے کہ اسپیس ریسرس پروگرام کے سابق اسرائیلی ڈائریکٹر ایشاد کے دعوؤں کے بارے میں شکوک و شبہات ہی پائے جاتے ہیں اور کوئی بھی ان کا یقین کرنے کو تیار نہیں ۔