رپورٹ:ودیا ساگرکمار
کسانوں کے احتجاج اور مطالبات کی حمایت میں ہزاروں سکھ جنگجو مودی سرکار سے لڑنے کیلیے تیار بیٹھے ہیں۔
بھارتی انٹیلی جنس بیورو نے اپنی رپورٹ میں مودی حکومت اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو خبردار کیا ہے کہ ’’نہنگ‘‘ کہلائے جانے والے سکھ قوم کے روایتی جنگجوؤں کے ساتھ ممکنہ تصادم سے ہر ممکن گریز کیا جائے ورنہ کسانوں کا احتجاج بھارت کے خلاف محاذ کا سبب بن جائے گا۔
بھارتی میڈیا سمیت مخبروں کی اطلاع پر آئی بی نے دعویٰ کیا ہے کہ دہلی میں کسانوں کے مظاہرے اور دارالحکومت کا گھیراؤ کرنے والے لاکھوں مرد و خواتین کی حفاظت کیلیے نہنگ سکھ جنگجو اپنے روایتی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ کسان تحریک کے رہنماؤں اور احتجاج میں شامل لاکھوں مرد و خواتین کا دو ٹوک اعلان ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری یعنی متنازع قوانین کی واپسی کے بغیر گھر واپس نہیں جائیں گے۔
بھارتی جریدے ’’دی ہندو‘‘ کی نمائندہ ہیمانی بھنڈاری نے بتایا ہے کہ اپنے مخصوص وضع قطع والے نہنگ سکھ جنگجوئوں کے جتھے، گھوڑوں پر اور پیدل، کسانوںکی حفاظت کیلیے دہلی پہنچے ہیں اور مزید پہنچ رہے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان سکھوں کے پاس موقع اور سکھ مذہبی احکامات کی رُو سے تیز دھار کرپانیں (تلوار) موجود ہیں۔ جبکہ سکھ جنگجوؤں نے بتایا ہے کہ وہ کسانوں کے مظاہرے میں نعرے لگانے یا فوٹو سیشن کیلیے نہیں بلکہ اعلیٰ سکھ رہنمائوں کی ہدایات کی روشنی میں کسان مرد و خواتین کی حفاظت کی خاطر پہنچے ہیں۔ اگر پولیس یا کسی ایجنسی نے کسانوں کو ہاتھ بھی لگایا تو پھر اس ہاتھ کی خیر نہیں ہوگی۔ ہم نے یہ پیغام دہلی سرکار کو پہنچا دیا ہے۔
انڈیا ٹائمز، انڈیا ٹوڈے، این ڈی ٹی وی سمیت ان گنت میڈیا آؤٹ لٹس نے نہنگ سکھ جنگجوؤں کی تصاویر اور ویڈیوز شائع و نشر کی ہیں اور کسی بھی ممکنہ پولیس تشدد کو نہنگ سکھوں کو اشتعال دلوانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ دہلی کے سنگھو بارڈر پر پولیس کے ناکہ کے بالمقابل سکھ نہنگ جنگجوؤں کا ایک 42 رکنی گروپ ’’بڈھا دَل‘‘ کے نام سے موجود ہے، جس میں شریک تمام نہنگ سکھوں کی عمریں 90 سے زیادہ ہیں اسی لیے ان کو ’’بڈھا دَل‘‘ قراردیا گیا ہے اور یہ پولیس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہتھیاروں کی نمائش کرتے، علی الصباح کی کسرت میں مشغول اور گھوڑے پر سوار ہوکر احتجاجی کیمپ میں گھومتے پھرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔
بڈھا دل کے سردار بادل سنگھ نے بتایا کہ وہ ترن تارن سے یہاں دہلی آئے ہیں اور سکھ قوم اور احتجاجی کسانوں کا دفاع کریںگے۔ دہلی کی سنگھو سرحد پر موجود مقامی بھارتی صحافی رنجیت کمار نے بتایا ہے کہ نہنگ سکھ جنگجو، کسان تحریک کی حمایت میں ہریانہ، پنجاب کے مختلف اضلاع سے بطور خاص دہلی آئے ہیں اور ان کو کسان تحریک کا پولیس تشدد کیخلاف دفاع کیلیے غیراعلانیہ طور پر ہر اول دستہ بھی مانا گیا ہے۔ ان کی اکثریت اپنی روایتی نیلی پگڑی اور کچھا پہن کر دور سے ہی منفرد دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ ان کے ہتھیار ان کو پولیس کیلیے خوف کی علامت بنا دیتے ہیں ۔
کسان احتجاج میں شریک سکھ رہنماؤں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ہم نے مودی سرکار کو پیغام دیدیا ہے کہ ’’تنگ آمد نہنگ آمد‘‘ کی حد تک ہمیں نہ دھکیلا جائے ورنہ خونریزی کی تمام تر ذمے داری بھارت سرکار کی ہوگی۔
عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ کسانوں کے ساتھ ان ہی کے بہروپ میں آہنی مٹھ دار لاٹھیوں، تیز دھار کرپانوں، برچھوں اور تلواروں، ڈھالوں اور نیزوں سمیت چوڑے پھل والی تلواروں سے مسلح یہ نہنگ سکھ جنگجو پولیس تشدد کی صورت میں ایک سیٹی بجنے کے بعد منظم انداز میں کسانوں کی تحریک میں شامل تمام مردو خواتین کو پیچھے کرکے خود پولیس کا مقابلہ کرنے کیلیے فرنٹ پر آجائیں گے اور اپنی کسرت، طاقت، جنگجو مہارتوں اور پینترے بازی سے پولیس کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیںگے۔ اگر پولیس ان پر فائر کرتی ہے تو یہ موقع سے فرار ہونے کے بجائے اپنی جان کسان تحریک اور سکھ قوم کیلیے قربان کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ بھارتی انٹیلی جنس بیورو نے 11 اپریل 2020ء کو پٹیالہ کے سبزی منڈی پولیس اسٹیشن پر نہنگ سکھ جنگجوئوں کی یلغار اور دو پولیس اہلکاروں کے ہاتھ کاٹ دینے کا حوالہ دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اکالی دل سمیت خالصتانی حامیوں نے سکھ جنگجوؤں کو اسلحہ و سازو سامان کے ساتھ کسانوں کی حفاظت کیلیے دہلی بھیجا ہے، جس سے پولیس کے کسی بھی ایکشن کی صورت میں شدید خونریزی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ جبکہ کینیڈا، امریکہ، برطانیہ سمیت نیوزی لینڈ اور پاکستان و چین کی حمایت کے بعد سکھ کسانوں کے حوصلے دوچند ہیں اور وہ مودی حکومت کی کوئی بھی بات سننے کیلیے تیار نہیں۔ اب تک مذاکرات کے سات ادوار ناکام ہوچکے ہیں اوراگلا دور پھر شروع ہونے والا ہے۔
واضح رہے کہ آج بھی پنجاب اور ہریانہ سمیت دہلی میں مسلح نہنگ اکالی جنگجوؤں کو نیلی پگڑی اور ہتھیاروں سمیت اونچا تہہ بند پہنا دیکھ کرالگ ہی سے پہچانا جاسکتا ہے۔ سیاہ یا گہرے نیلے کپڑوں اور بڑے پگڑوں سمیت تلوار یا برچھے یا چاقوؤں سے مسلح یہ سکھ اپنی کسرت اور چوکسی کے سبب منفرد جنگجو دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ سکھ گرو گوبند کی ہدایات کی روشنی میں پنجاب سمیت ہریانہ اور ملحقہ علاقوں میں نہنگ اکالیوں کو جنگجوئیت سکھانے اور بھرتی کے مقدس سکھ مراکز گوردواروں کے اندر قائم کیے جاتے ہیں، جہاں کم سنی ہی میں نہنگ اکالی جنگجو بننے کے خواہشمند سکھ بچوں کو داخلہ دلوایا جاتا ہے اور تلوار زنی سمیت برچھوں، لاٹھی ڈنڈوں، نیزوں اور چھری چاقوؤں سمیت گھڑ سواری اور ڈھال کا جنگی استعمال سکھایا جاتا ہے۔
گردواروں میں ہر چھٹی کے روز ان میں جسمانی کرتب، تلوار زنی سمیت ہتھیاروں اور جسمانی کرتب و کسرت کے مقابلہ جات بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ نہنگ یا ’’گرو گوبندکی لاڈلی فوج‘‘ کہلائی جانے والی اس سکھ جنگجو فوج کو سکھوں کے چھٹے’’گرو گوبند سنگھ‘‘ کی جانب سے کم از کم تین سو برس قبل سکھوں کی عمل داری کے قیام اور حکومت کو مضبوط بنانے کیلیے قائم کیا گیا تھا۔