اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں یہودی آبادکاروں کے لیے 800 نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری دے دی گئی جس پر سعودی عرب نے شدید تنقید کی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ’’واس‘‘ کے توسط سے جاری کردہ بیان میں سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی فیصلوں کی نئی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ بیان کے مطابق یہ پیش رفت قیام امن اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی کوششوں کے لیے خطرہ ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے مذمتی بیان اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے پیر کے روز مقبوضہ مغربی اردن میں قائم یہودی بستیوں میں 800 نئے رہائشی مکانات تعمیر کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر سے عربی زبان میں جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم نے یھودا اور السامرہ کے علاقے میں یہودیوں کے لیے 800 نئے رہائشی مکانات تعمیر کرنے کی ہدایت جاری کی ہے اور یہ مکانات نووی نیحامیا اور تال میناشیہ میونسپلٹی کی حدود میں تعمیر ہوں گے۔
بیان میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ جنوبی مینہ نابلس کی یہودی بستی ریحالیم میں 200 مکانات جبکہ سلفیٹ گورنری کی مشرقی یہودی بستی نوفی نیحامیا میں بھی نئے رہائشی مکانات تعمیر ہوں گے۔
نیتن یاہو کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے سپریم پلاننگ کونسل کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اگلے اجلاس میں مذکورہ 800 مکانات کے علاوہ 400 اضافی رہائشی یونٹس کی تعمیر کا منصوبہ منظوری کے لیے پیش کرے۔
مغربی اردن کے علاقے میں کم از کم ساڑھے چار لاکھ یہودی آباد کار رہائش پذیر ہیں۔ یہ تعداد 28 لاکھ فلسطینیوں کے درمیان رہائش پذیر ہے۔ بین الاقوامی برادری مغربی کنارے میں تعمیر ہونے والی تمام یہودی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتی ہے۔