اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر عدلیہ سے متعلق تضحیک آمیز رویے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔
ہائی کورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس وقت لوگ یوٹیوب چینل پر گالیاں دے رہے ہیں، ان میں سے کچھ ملک سے باہر کچھ ملک کے اندر بیٹھے ہیں، آدھا سچ آدھا جھوٹ پھیلایا جاتا ہے، ابھی تک ہم توہین آمیز رویے کو ختم نہیں کر سکے، وفاقی حکومت اور آئی ایس پی آر تو جھوٹ کا جواب دے دیتے ہیں لیکن عدلیہ تو نہیں دے سکتی، سارا دن یہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے، ریگولیٹر کو کچھ نظر نہیں آ رہا، بہت سی ایسی باتیں بھی ہیں جو نہیں کہنا چاہتا۔
عدالت نے کہا کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے ملک کے خلاف کیا ہے، پبلک انٹرسٹ کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے، میں نہ اخبار پڑھتا ہوں نہ سوشل میڈیا، تاکہ ہمارے رائے پر کوئی اثر نہ پڑے، جن کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو کوئی یوٹیوب تو کوئی ٹک ٹاک پر دل کی بھڑاس نکالتا ہے، کسی کے خاندان کی تضحیک کی جائے تو اس کے دل پر گزرتی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہمیں کبھی ریاست کے خلاف تو کبھی غیر مسلم اور پتہ نہیں کیا کیا لکھ دیا جاتا ہے، یہاں تو سزا یافتہ مجرم بھی سزا پوری کیے بغیر بیرون ملک چلے گئے، جبکہ اسد درانی تو سزا پوری کر چکے ہیں۔
عدالت نے اسد درانی کیس میں فریقین سے آئندہ سماعت پر مزید دلائل طلب کرتے ہوئے مزید سماعت بارہ فروری تک ملتوی کردی۔