اسلام آباد:مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات کے لیے رابطے کر رہی ہے لیکن اسے این آراو نہیں دیں گے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر مریم نوازنے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں پارلیمانی پارٹی کے لیے میاں نواز شریف کا خاص پیغام لائی ہوں،جو یہ ہے کہ حکومت مکمل ناکام ہو چکی، اپوزیشن کے پاس تمام آپشنز موجود ہیں، اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مناسب وقت پر پارلیمنٹ سے استعفوں کا آپشن استعمال کرے گی۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ حکومت مذاکرات کے لیے رابطے کر رہی ہے بلکہ اپوزیشن کی منتیں کررہی ہے لیکن اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنی اوراین آراو نہیں دیں گے، اپوزیشن کی یہ منتیں کرنے آئے تھے لیکن اب اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی۔
ارکان کی وفاداری بدلنے کی مبینہ حکومتی کوششوں سے متعلق سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ مسلم لیگ ن سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے ارکان سے جتنے بھی رابطے کریں انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، ن لیگ محفوظ ہے، ن لیگ کے ٹکٹ کے لیے پورا پاکستان درخواست دے گا اوران کے ٹکٹ کے لیے کوئی اپلائی نہیں کرے گا۔
مریم نواز نے کہا کہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے، آج ملک میں عوام کا برا حال ہے، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کہاں پہنچ چکی ہیں، جو حال آج ملک کا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، میڈیا کو بھی پریشر میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے پروڈکشن آرڈر کے حوالے سے سختی سے منع کیا ہے ، حکومت اپنے پروڈکشن آرڈر اپنے پاس ہی رکھے۔
مریم نوازنے کہا کہ لیزکی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ملائیشیا میں جہاز روک لیا گیا اورآپ کہتے تھے گرین پاسپورٹ کی عزت کرائیں گے لیکن آج گرین پاسپورٹ کو کوئی ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت فیل ہو چکی ہے اورمزید نہیں چل سکتی۔ عوام میں آگاہی اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت کی کارکردگی سے اجاگر ہو رہی ہے اور مہنگائی کا طوفان حکومتی کارکردگی کا گواہ ہے۔
مریم نوازنے کہا کہ جو ناکامی 73 سال میں نہیں ہوئی وہ ڈھائی سال میں ہو گئی اور حکومت نااہلی میں اتنی آگے ہے کہ کچھ بھی گروی رکھ سکتی ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنے والوں نے قرضوں کے انبار لگا دیے۔ لانگ مارچ ضرور ہو گا اور اس میں اب زیادہ دیر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ سمیت کسی بھی سیاسی جماعت سے جتنے بھی رابطے کریں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اپوزیشن پر تنقید کے بجائے اپنے ارکان پر توجہ دینی چاہیے۔