میانمار کی فوج نے ایک مرتبہ پھر آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کردی اوراقتدار پر قبضہ کرلیا۔
صبح سویرے چھاپوں کے دوران آنگ سان سوچی،صدر ون مائنٹ ،وزرا اوران کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) پارٹی کے دیگر رہنمائوں کو حراست میں لے لیا، یہ اقدام حکومت اور فوج کے درمیان کئی روزکے تناﺅ کے بعد سامنے آیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دارالحکومت میں مارشل لا جیسی صورتحال ہے۔ انٹر نیٹ بند اور ٹیلی فون لائنز کاٹ دی گئیں۔ میانمار کے ریاستی نشریاتی ادارے کو تکنیکی مسائل کا سامنا ہے۔ فوج نے صوبوں کے وزراعلی کے گھروں پر بھی چھاپے مار کر انہیں بھی حراست میں لے لیا ہے۔ آج ہونے والا پارلیمنٹ کا اجلاس منسوخ کر دیا گیا۔ فوج نے پہلے اس اجلاس کے التوا کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ دارالحکومت سمیت کئی شہروں کی سڑکوں پر فوجی موجود ہیں۔
بتایاگیاہے کہ دارالحکومت نیپیداو اور اہم تجارتی مرکز ینگون کے لیے فون لائنز تک رسائی نہیں ہوسکی اور پارلیمنٹ کی پہلی نشست سے قبل سرکاری ٹی وی کو بھی بند کردیا گیا۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ فوجیوں نے ینگون کے سٹی ہال میں پوزیشن سنبھال لی ہیں اور این ایل ڈی کے گڑھ میں موبائل انٹرنیٹ ڈیٹا اور فون سروسز بھی متاثر ہیں۔
حکمران جماعت این ایل ڈی کے ترجمان میو نیونٹ نے فون کے ذریعے بتایا کہ آنگ سان سو چی میانمار کے صدر ون مائنٹ اور دیگر این ایل ڈی کے رہنماو ں کو صبح سویرے ‘حراست میں لیا گیا،میں اپنے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ردعمل نہ دیں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ قانون کے مطابق کام کریں’۔انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ وہ خود بھی گرفتار ہوجائیں گے، بعد ازاں ان سے بھی رابطہ نہ ہوسکا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یہ حراست سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی ہے جس نے انتخابات کے نتیجے میں بغاوت کے خدشات کو جنم دیا تھا۔برطانوی میڈیا کے مطابق گزشتہ ہفتوں فوج نے اشارہ دیا تھا کہ انتخابات کی بے ضابطگیوں کے حل کیلئے وہ اقتدار پر قبضہ کرسکتے ہیں ۔