ودیا ساگر کمار:
خلائی تنازعات کے حل اور مقدمات کی سماعت کیلیے دبئی میں عالمی اسپیس کورٹ قائم کردی گئی ۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اب ایک پروگرام کے تحت 2024ء میں مریخ پر تحقیقی مشن بھی روانہ کر رہا ہے۔ تاکہ اس شعبے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کیا جا سکے۔
دبئی سے شائع ہونے والے جریدے نے بتایا کہ دبئی میں ورلڈ اسپیس کورٹ کے قیام کے اعلان کا بنیادی مقصد کاروباری تنازعات کو نمٹانا ہے۔ عالمی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ عالمی عدالت دبئی میں دبئی انٹرنیشنل فنانشل سینٹر کورٹس سے متصل قائم کی جائے گی۔ جو آزاد برطانوی مصالحتی سینٹر سے متاثر ہوکر بنائی جا رہی ہے۔
ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ اس وقت رائج خلائی قوانین میں عالمی کنونشنزاورقراردادوں سمیت اقوام متحدہ کی آؤٹر اسپیس ٹریٹی (معاہدہ) جو 1967ء میں لاگو کیا گیا تھا، پر ملدرآمد کرکے تنازعات کا حل تلاش کیا جاتا ہے اور خلائی تحقیق میں شامل کئی ممالک نے اپنی خلائی سرگرمیوں کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کیلیے دو طرفہ اور کثیرالملکی معاہدات پر دستخط کر رکھے ہیں۔ تاکہ کسی بھی خلائی تنازعہ کا حل تلاش کیا جاسکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خلا میں بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی اڈوں کے قیام نے کئی ممالک اور بالخصوص چین، روس اور امریکا میں نئی مسابقت پیدا کردی ہے۔ جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ خلا میں موجود قیمتی دھاتوں اور پتھروں کی چٹانوں اور سیاروں کی دریافت کے بعد اسے حاصل کرنے کی ایک نئی خلائی جنگ کا آغاز ہونیوالا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آسٹریلوی تحقیق کے مطابق خلا میں ہیرے اور پلاٹینم سمیت کئی قیمتی دھاتوں کے خزانے موجود ہیں۔ جن کی تلاش کے بعد ان کو زمین پر لانے کیلیے کام کیا جائے گا اوراس کیلیے مختلف ممالک کی کمپنیاں و خلائی تحقیقی ادارے مستقبل کی ابھی سے پلاننگ کررہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اب تک یہ معاملہ ملکوں اور اداروں تک محدود تھا۔ لیکن اب خلا میں نجی کمپنیوں کے لیے ایک کاروباری معاملہ بن چکا ہے۔ جہاںقدم جمانے کیلیے عالمی کمپنیاں مثلا اسپیس ایکس اور امیزون نہ صرف اپنا اثر رسوخ استعمال کررہی ہیں۔ بلکہ کروڑوں ڈالرزکی سرمایہ کاری بھی کررہی ہیں۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق
ڈی آئی ایف سی کے چیف جسٹس ذکی الاعظمی نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ اشتراک پر مبنی ایک خلائی صنعت پر کام شروع کیا جا رہا ہے۔ جس کو انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور سائنسی ریسرچ کی معاونت بھی حاصل ہو گی۔ دبئی میں خلائی عدالت کا قیام ایک ایسا عالمی قدم ہے۔ جو مساوی طور پرکام کرتے ہوئے 21 ویں صدی میں ہونے والی خلائی تحقیق میں عدالتی معاونت کا ایک قابل قبول نیٹ ورک فراہم کرے گا۔
یاد رہے کہ 2004ء میں قائم کی جانے والی ڈی آئی ایف سی عدالتوں نے پہلے ہی کئی غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان کمرشل تنازعات کے حل کرنے میں مفاہمت پر مبنی کردارادا کیا ہے لیکن اب تک یہ عدالت خلا میں نجی کمپنیوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے مہارت حاصل نہیں کر سکی۔ جس کی وجہ سے دبئی میں عالمی خلائی عدالت کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔
مسٹراعظمی کا کہنا ہے کہ خلائی صنعت، تحقیق کے ساتھ ساتھ تجارت کی حیثیت میں بھی بین الااقوامی حیثیت حاصل کر چکی ہے اور یہ پیچیدہ کاروباری معاہدوں کے تحت میدان وسیع ہو رہا ہے۔ اس لئے امن قائم رکھنے کیلئے ایک جدید عدالتی نظام کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ عرب امارات نے حالیہ برسوں میں خلائی شعبے پر اربوں ڈالرز کی بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور یو اے ای 2019ء میں مریخ کیلیے ہوپ نامی ایک مشن بھی کامیابی سے روانہ کر چکا ہے۔ ڈی آئی ایف سی کی چیف رجسٹرار آمنہ الاویس کا کہنا تھا کہ ’’یہ ہماری رہنمائی کیلیے کافی تھا کہ ہمیں متحدہ عرب امارات میں درست انفراسٹرکچرکی ضرورت ہے۔ ہم خلائی تنازعات کے حل کیلیے قائم کی جانیوالی عدالت کے دائرہ کاراورمتعلقہ امورکیلیے اصول و ضوابط طے کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ان کی بڑے پیمانے پر مستقبل میں ضرورت درپیش ہوگی۔
آمنہ نے خلا میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹس اور سامان کی خریداری سمیت دیگر امور پر پیدا ہونے والے اختلافات کی مثال بھی دی اور بتایا کہ عرب امارات اور دنیا بھر میں موجود کمپنیاں اپنے خلا سے متعلق مسائل اور تنازعات کے حل کیلیے اس ٹریبونل سے رجوع کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر تنازعات کے حل کیلیے بھی اسپیس کورٹ کا فورم حاضر ہے۔
یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات خلائی افق پر بھی اپنے اثر رسوخ کیلیے کافی جدوجہد کر رہا ہے اور اس نے 2024ء تک چاند پر ایک خلائی گاڑی بھیجنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصدچاند کی سطح کا مطالعہ کر کے نئی جہت پر سائنسی دریافت کرنا ہے۔
شیخ راشد کا اس سلسلہ میں دعویٰ ہے کہ عربوں کی جانب سے چاند تک رسائی کی یہ پہلی کوشش ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم 2024ء تک چاند پر اب تک کا سب سے پہلا عرب مشن لانچ کرنے والے ہیں۔ ہماری چاند پر بھیجی جانے والی قمری گاڑی چاند کے نئے مقامات سے ایسی تصاویر اور ڈیٹا جمع کرکے بھیجے گی۔ جو چاند کے سابقہ مشنز نے پہلے تلاش نہیں کیا ہوگا۔ حاصل ہونیوالے ڈیٹا کو عالمی تحقیقاتی مراکز اور اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
اماراتی میڈیا کا کہنا ہے کہ اگر چاند پر خلائی گاڑی بھیجنے کا یہ مشن کامیاب ہوتا ہے تو متحدہ عرب امارات اس مشن میں امریکا، روس اور چین کے بعد کامیاب ہونے والا دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔ خلائی گاڑی یو اے ای کے مقامی انجینئرز تیار کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس متحدہ عرب امارات نے سب سے پہلے خلا میں اپنا ایک سیوز راکٹ بھیجا تھا۔ جو قازقستان سے روانہ کیا گیا تھا۔ اس راکٹ میں سوار تین افراد نے آٹھ روز تک خلا میں گزارے تھے۔