رپورٹ: علی علی اعظمی
برطانوی حکام نے تصدیق کی ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہزاروں افراد کی لاشیں آخری رسومات کی منتظر ہیں۔ ملک بھر کے تمام سرد خانے بھر چکے ہیں۔ مساجد، چرچوں سمیت ایئر پورٹس اور اسپورٹس میدانوں میں بنائے جانے والے عارضی مردہ خانوں میں بھی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ جبکہ کورونا میں مرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لندن کے میئر صادق خان نے صورتحال کو انتہائی گمبھیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ لاشوں کو دفن یا نذر آتش کرنا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ آخری رسومات کا اہتمام کرنے والے برطانوی نجی اداروں کی تنظیم کی رکن ڈیبور اسمتھ نے بتایا کہ تابوت تیار کرنے والے کارکنان موجودہ صورت حال میں سخت پریشان ہیں۔ درجنوں کارکنان ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق لندن سمیت برطانیہ بھر میں وبا سے ایک لاکھ تیس ہزار لاکھ سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہزاروں لاشیں تاحال تدفین کی منتظر ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے صورت حال کو انتباہی قرار دیا ہے اور عالمی ماہرین سے مشورہ طلب کیا ہے کہ اس منظر نامہ میں کیا اقدامات اٹھائے جائیں؟ لندن سے موصول رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹرز اور طبی کارکنان بھی بہت پریشان ہیں۔ کیونکہ ان کو روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں نئے مریضوں کی دیکھ بھال کرنی پڑ رہی ہے۔ دوسری جانب کورونا سے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اپنے عزیزوں کی آخری رسومات میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکتے۔ سینکڑوں لواحقین نے تصدیق کی ہے کہ کئی کئی ماہ پہلے ہلاک ہونے والے ان کے عزیزوں کی لاشوں کی تاحال تدفین نہیں کی جاسکی ہے۔ بین اسٹون نامی ایک برطانوی شہری نے بتایا کہ اس کے والد کی لاش کو تابوت میں بند کرکے ایک اسپتال کے مردہ خانہ میں رکھا گیا تھا۔ لیکن تین ماہ ہونے کو آئے ہیں اور اب تک ان کی لاش کو دفن نہیں کیا جاسکا ہے۔ برطانوی جریدے ’’گارجین‘‘ سے بات کرتے ہوئے برٹش مسلم کونسل نے بتایا ہے کہ لندن کی مختلف مساجد کی انتظامیہ نے کار پارکنگ سمیت دیگر احاطوں میں عارضی مردہ خانے بنائے تھے، جہاں مسلمان شہریوں کی میتوں کو تدفین کے انتظار میں رکھا جا رہا تھا۔ لیکن گزشتہ روز حکام نے مساجد سمیت لندن کے بڑے کلیسائوں کو مزید لاشیں رکھنے سے روک دیا ہے۔ یاد رہے کہ کورونا وائرس سے انگلستان میں بڑھتی ہوئی اموات کی وجہ سے مسلمان شہریوں کی میتوں کیلئے غسل، تجہیز و تکفین سمیت جنازے میں شرکت کے مسائل ہیں، وہیں سب سے بڑا مسئلہ میت کو دفن کرنا بھی ہے۔ ایسا ہی معاملہ کرسچن شہریوں کا ہے جن کو لاشوں کو نہلانے دھلانے اور کفن پہنا کر تابوت میں دفن کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ واضح رہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے جنازے میں صرف چند افراد کو شرکت کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن اس کیلئے بھی لاکھوں شہری منتظر ہیں کیونکہ ان کے پیاروں کی لاشوں کی تدفین کیلئے حکام کا گرین سگنل تاحال نہیں ملا ہے۔ ادھر آخری رسومات کے نجی اداروں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ وہ تابوت بناتے ہوئے تھک چکے ہیں۔ لیکن لاشوں کی تدفین اور آخری رسومات کا کام انبار کی شکل میں ان کے کاندھوں پر بدستور موجود ہے۔ دوسری جانب برطانیہ کے معروف شہر برمنگھم میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، وہاں بھی ہزاروں افراد کورونا سے انتقال کرچکے ہیں۔ ان مسلمان شہریوں کی میتیں دفن کرنے کا مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ برطانوی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ برمنگھم ائیرپورٹ کے ایک بہت بڑے حصے کو بھی عارضی مردہ خانے میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جو اب بھر چکا ہے۔ سب سے پریشان طبقہ لاشوں کی تدفین کرنے والے اداروں کے وہ کارکن ہیں، جنہوں نے ماضی میں ایسی کوئی صورت حال دیکھی ہی نہیں تھی۔ بعض کارکنان اور افسران چوبیس گھنٹوں کی بنیاد پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، مگر ان کی ذمہ داریاں پوری نہیں ہو رہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق اٹلی، اسپین، برازیل، امریکا، بھارت اور چین کے بعد کورونا اموات کے اعتبار سے برطانیہ کا نمبر آتا ہے۔ وبا سے اب تک یہاں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد اموات واقع ہوچکی ہیں۔ ’’دی سن‘‘ کے مطابق گزشتہ ماہ جنوری 2021ء میں جب برطانیہ میں کورونا کے باعث اموات کی یومیہ تعداد ایک ہزار سے زائد تھی، تب لندن کے مغرب میں مقامی حکومت نے ایک ایسی عارضی عمارت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جہاں میتوں کو رکھا جا سکے۔ اس عمارت میں دو ہزار لاشیں رکھنے کی گنجائش تھی۔ لیکن اس وقت یہ عمارت بھر چکی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ایک جانب کورونا کے باعث اموات ہو رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب بڑھاپے، خرابی صحت یا دیگر امراض کی وجہ سے اموات بھی معمول کے مطابق ہیں۔ اسی لئے آخری رسومات کا اہتمام کرنے والے نجی اداروں کو غیر معمولی حد تک دباؤ کا سامنا ہے۔