ٹاپو سیرس میگنا کے مندر سے قلوپطرہ ہفتم دور کے 16 تابوت ملے ہیں- مرنے والوں کی زبانیں کاٹ کر جبڑے میں سونے کے پتوں کو رکھ دیا گیا تھا- قدیم یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ مرنے والے افراد زمینی خدا سے بات کر سکیں گے
ٹاپو سیرس میگنا کے مندر سے قلوپطرہ ہفتم دور کے 16 تابوت ملے ہیں- مرنے والوں کی زبانیں کاٹ کر جبڑے میں سونے کے پتوں کو رکھ دیا گیا تھا- قدیم یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ مرنے والے افراد زمینی خدا سے بات کر سکیں گے

مصر میں دریافت ممیوں کی زبانیں سونے کی ہیں

میگزین رپورٹ

مصر کی وزارت آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ ماہرین نے ملک کے شمالی حصے میں دو ہزار برس پرانی ایسی حنوط شدہ لاشیں یا ممیاں دریافت کی ہیں۔ جن کے جبڑوں کے درمیان سنہری زبان رکھی ہوئی ہیں۔ مصر اور ڈومینک رپبلک کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے اسکندریہ کے شہر کے قریب ٹاپو سیریس میگنا کے مندر میں سولہ ایسے مقبرے دریافت کئے۔ جو پتھر کی چٹانیں کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ اس طرح کے مقبرے یونانیوں اور رومیوں کے دور میں بنائے جاتے تھے۔ ان مقبروں میں سے ایسی شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ جنھیں محفوظ بنانے میں احتیاط نہیں برتی گئی تھی۔ ٹاپو سیرس میگنا کے مندر سے ملنے والی ممیوں کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ ان کی زبانیں سونے کے پتوں سے بنی ہوئی ہیں اور ان کے منہ میں سونے کے یہ پتے تدفین کے عمل کے دوران ان کی اپنی زبانیں نکال لینے کے بعد رکھے گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق ایسا اس امید پر کیا گیا کہ مرنے کے بعد یہ قدیم یونانیوں کے زمینی خدا آسیریس سے بات کر سکیں گے۔ آسیریس کو قدیم مصر میں زیر زمین دنیا کا خدا اور مرنے والوں کا منصف مانا جاتا تھا اور اسے ایک اہم خدا کا درجہ حاصل تھا۔ اس سلسلے میں یہ بھی خیال جا رہا ہے کہ مرنے والوں کی زبانوں کی جگہ سونے کا ملمع چڑھا زبان کی شکل کا تعویذ رکھ دیا جاتا تھا تاکہ وہ بعد از مرگ اپنے دیوتا آسیریس کی عدالت میں بول سکیں۔ جس گنبد سے یہ ممیاں دریافت ہوئی ہیں۔ اس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ دو ہزار سال پرانا ہو سکتا ہے اور قدیم یونانی اور رومی ادوار میں معروف رہا ہو گا۔ مصر کی وزارت سیاحت اور نوادرات نے تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں سونے کی زبانوں والی ممیز دریافت کرلی گئی ہیں۔ مصری ڈومینکن ماہر ارضیات کی ایک ٹیم نے مغربی سکندریہ کے علاقے سے پتھروں کے تابوت میں دفن 16 ممیز دریافت کی ہیں، جن کی زبانیں سونے کی ہیں۔ سکندریہ میں نوادرات پر اتھارٹی کا درجہ رکھنے والے خالد ابوالحمد کا کہنا ہے کہ اس مقام سے ایک خاتون کا جنازے میں شریک ہونے کے لیے پہنا جانے والا ماسک بھی ملا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سنہری پھولوں کی چادر اور ماربل کے ٹکڑوں سے بنا یہ ماسک یونانی اور رومی ادوار سے تعلق رکھتا ہے۔ کھدائی کرنے والی ٹیم کا خیال ہے کہ جب مذکورہ ممی کی زبان کٹ گئی تھی تو اسے سونے کی زبان لگا دی گئی ہو گی۔ تاکہ وہ مرنے کے بعد اپنے خدا سے بات کر سکے۔ ملنے والی ممیوں کی باقیات خراب ہو چکی ہیں۔ تاہم کچھ ممیوں کے پتھر کے ماسک صحیح سلامت ہیں جن کی مدد سے ماہرین کو یہ جاننے میں مدد مل رہی ہے کہ ان کے چہرے کیسے تھے۔ مصر کی وزارت نوادرات کے مطابق سکوں پر ملکہ قلوپطرہ ہفتم کی تصاویر اور نام کندہ تھا۔ قلوپطرہ ہفتم مصر کی آخری یونانی بولنے والی ملکہ تھی۔ جس کا تعلق پٹولمیٹک خاندان سے تھا۔ وہ پٹولیمی ائی سوٹر نامی مقدونیائی یونانی جنرل کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ جس نے اس شاہی خاندان کی بنیاد رکھی تھی۔ جو سکندر اعظم کے ساتھی تھے۔ قلوپطرہ نے مصر پر 51 سے 30 قبل از مسیح تک حکومت کی تھی اور اس کی موت کے بعد یہ روم کے زیر تسلط آگیا تھا۔ یہ مقبرے دریافت کرنے والے ماہرین کی ٹیم کے سربراہ کیتھلین مارٹنیز جن کا تعلق سانتو ڈیمنگو یونیورسٹی سے ہے، نے بتایا کہ اس دیوتا کا عکس ایک ڈبے پر بھی بنا ہوا تھا۔ جس میں ایک مخروط شدہ لاش رکھی گئی تھی۔ اس مخروط شدہ لاش کا سر اس ڈبے میں رکھا ہوا تھا۔ جس پر ایک تاج، سینگھ اور کوبرا سانپ کے عکس بھی بنے ہوئے تھے۔ تابوت کے اوپر بنے نقش و نگار میں ایک ہار کی تصویر بھی شامل تھی۔ جس میں ایک باز یا شاہین کا سر لٹکا ہوا تھا۔ جو کہ دیوتا ہورس کی علامت ہے۔ اسکندریہ کے آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل خالد ابو الحمد نے کہا کہ تاپوسیریس مگنا میں آثار قدیمہ کی کھدائی میں انھیں ایک خاتون کے جنازوں پر پہنے جانے والے نقاب، آٹھ طلائی پھولوں کی چادر کی سونے کی پتیاں اور سنگ مرمر کی سلیں بھی ملیں جو یونانی اور رومی دور کی ہیں۔ آثار قدیمہ کی ورزارت کا کہنا ہے کہ اسی مقبرے سے ایسے سکے بھی ملے تھے جن پر ملکہ قلوپترا ہفتم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ قلوپترا ہفتم یونانی زبان بولنے والی پطلیموسی سطلنت کی آخری ملکہ تھی۔ جو مصر میں 51 قبل از مسیحی سے 30 قبل از مسیح تک قائم رہی۔ قلوپترا کی موت کے بعد مصر روم کے دائر اختیار میں چلا گیا۔