رپورٹ:نجم الحسن عارف:
ملک کے نامور ماہرینِ آئین و قانون نے سینیٹ الیکشن کے لیے حکومتی آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے اسے توہین عدالت، توہین پارلیمنٹ اور توہین عوام قرار دے دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین عابد ساقی ایڈووکیٹ نے حکومتی آرڈیننس کو وکلا کے اس اعلیٰ ترین فورم میں زیر بحث لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ سابق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر شاہدہ جمیل کے مطابق یہ آرڈیننس اسی اٹھارہویں ترمیم کا تتمہ ہے۔ جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کی آزادی رائے سلب کرنے کے لئے فلور کراسنگ کے حوالے سے پارٹی سربراہان کو آمرانہ اختیار دیا گیا تھا۔ اب اسی کو اس آرڈیننس کے ذریعے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین عابد ساقی ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کورتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کا آرڈیننس واضح طور پر ایک غیر آئینی اقدام ہے۔ آرڈیننس کا اجرا کرنا قانون سازی کے پارلیمانی طریقے سے فرار کی کوشش ہے۔ حکومت نے اس سے بھی زیادہ قابل مذمت کام یہ کیا کہ پہلے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کے بجائے عدالت سے رجوع کیا۔ ابھی عدالت میں یہ معاملہ زیر سماعت ہی تھا کہ انہوں نے یہ آرڈیننس جاری کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے آرڈیننس جاری کر کے پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں کو ’انڈر مائین‘ کیا ہے۔ میں اسے توہین عدالت اور توہین پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ توہین عوام پر مبنی حکومتی اقدام بھی سمجھتا ہوں‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں عابد ساقی ایڈووکیٹ نے کہا ’’پاکستان بار کونسل یہ حق رکھتی ہے کہ ملک میں آئین، قانون اور آئینی فورمز کی بالا دستی کے لئے اپنا موقف سامنے لائے۔ ہم پاکستان بار کونسل کے اجلاس میں بھی اس معاملے کو زیر بحث لائیں گے اور کونسل کی طرف سے باضابطہ طور پر موقف بھی پیش کیا جائے گا۔ ضروری سمجھا گیا تو کونسل اس سلسلے میں عدالت میں فریق بھی بنائی جا سکتی ہے۔ جب یہ معاملہ عدالت میں پہلے سے زیر بحث تھا تو عدالتی حکم کا انتظار کیے بغیر آرڈیننس جاری کیے جانے کا کوئی جواز نہیں تھا‘‘۔
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’دوہری شہریت کے حامل افراد کے پارلیمنٹ کا رکن نہ بن سکنے کے بارے میں عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ مگر حکومت نے اسی آرڈیننس میں اس عدالتی فیصلے کے بھی برعکس دوہری شہریت والوں کو سینیٹ کا الیکشن لڑنے کا حق دیا ہے۔ اسے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر حکومت کو دوہری شہریت والوں کو ’’اکاموڈیٹ‘‘ کرنا ہی تھا تو سیدھے طریقے سے قانون سازی کرتی۔ آرڈیننس کے ذریعے عدالتی فیصلے کو رد کرنا درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ضیا مار شل لا کا دور ہے نہ جنرل مشرف کی حکومت ہے کہ جس میں آرڈیننسوں کے ذریعے حکومت چلائی جائے‘‘۔
حکومتی آرڈیننس کے حوالے سے کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’میری رائے میں اس آرڈیننس کے اجرا کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے پاس تین راستے ہیں۔ جن کے ذریعے حکومتی آرڈیننس کی مزاحمت کی جا سکتی ہے۔ اولا یہ کہ معاملہ عدالت میں ہونے کے باوجود آرڈیننس جاری کیا گیا اور عدالتی تشریح کا انتظار نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے اپوزیشن جماعتیں چاہیں تو حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر سکتی ہیں۔ ثانیا یہ کہ اس آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہیں۔ ثالثا قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس ریکوزٹ کرکے اس کے خلاف قرارداد لاتے ہوئے اسے مسترد کر سکتی ہیں۔ میں نے اپنی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو اپنی اس رائے سے آگاہ کر دیا ہے۔ ویسے جے یو آئی پہلے سے ہی اس معاملے میں فریق بن چکی ہے۔ حکومت نے جس انداز سے یہ آرڈیننس جاری کیا۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ لیکن جہاں تک عدلیہ سے اس بارے میں اپوزیشن جماعتوں کے حق میں فیصلہ آنے یا نہ آنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں فیصلے کرنے کا ایک اپنا کلچر رہا ہے۔ اس لیے عدالت میں جانے سے نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حتی کہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے اس آرڈیننس کے خلاف بہت موثر آواز اٹھ سکتی ہے اور پارلیمنٹ سے مسترد ہونے کے بعد اس آرڈیننس کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ پارلیمنٹ چاہے تو اس آرڈیننس کو مسترد کر سکتی ہے‘‘۔
سابق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر شاہدہ جمیل کا کہنا تھا کہ ’’سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گی کہ سینیٹ کے بالواسطہ انتخاب کے طریقے کو تبدیل کر دیاجائے۔ انتخابی نظام میں مجموعی تبدیلی لاتے ہوئے قومی اسمبلی کے ارکان چار سال بعد منتخب کیے جائیں اور ان کے ساتھ ہی ہر چار سال بعد سینیٹ ارکان کی آدھی تعداد کو براہ راست عوام منتخب کریں۔ موجودہ طریقہ کار میں پارلیمنٹ کو عوامی نمائندگی کے اعلی مقام سے گرا کر سیاسی جماعتوں کے چار چھ سربراہان کی مرضی و منشا کے تابع کر دیا گیا ہے۔ اس طرح پارلیمانی جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی آمریت کا نظام وضع کر دیا گیا ہے۔ یہ کسی بھی طرح عوام کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔ میں یہ بھی کہوں گی کہ اس طریقہ کار کے ذریعے سے پارٹی سربراہان کو ایک مافیا کے طور پر پارلیمنٹ اور اس کے ارکان پر بالادست بنا دیا گیا ہے۔ ماضی میں منظورکی گئی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پارٹی سربراہان کی آمریت کی جو منظم کوشش کی گئی تھی۔ اب اس آرڈیننس کے ذریعے اسے مزید مستحکم کر دیا گیا ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر شاہدہ جمیل نے کہا ’’اس آرڈیننس میں ایک اور غلط بات یہ ہے کہ دوہری شہریت والے افراد بھی سینیٹ کا الیکشن لڑسکیں گے۔ حالانکہ اس سے پہلے عدالتی فیصلے اس سے قبل آچکے ہیں۔ یہ ان فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ان معنوں میں بھی یہ عدلیہ کے تقدس کی توہین کے مترادف ہے۔ اگر حکومت کا تھوڑا بہت بھی اس معاملے میں اخلاص ہوتا تو اس آرڈیننس کو عین سینیٹ الیکشن سے پہلے سامنے لاتی۔ اسے کم از کم ایک سال پہلے یہ ترمیم پیش کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اب جبکہ سینیٹ الیکشن سر پر ہے۔ یہ آرڈیننس جاری کر کے اپنے مفاد کا کھلا اظہار کیا گیا ہے‘‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں بیرسٹر شاہدہ جمیل نے کہا ’’جن افراد کے پاس دوہری شہریت ہو۔ انہیں کم از کم چھ ماہ پہلے اس سے دستبردار ہو کر الیکشن کی طرف آنا چاہیے۔ نیز یہ بھی ہونا چاہیے کہ جو افراد پارلیمنٹ میں آئے ہوں۔ پارلیمنٹ سے فراغت کے بعد دو سال تک ان پر پابندی ہو کہ وہ کسی دوسرے ملک کی شہریت کے لیے اپلائی نہ کرسکیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جس طرح آرڈیننس میں دوہری شہریت والوں کو اکاموڈیٹ کیا گیا۔ اس سے ملک کے اندر بیرونی سرمایہ آئے گا اور ایجنڈے کے ساتھ آئے گا۔ یہ درست نہیں مانا جا سکتا۔ ہماری پارلیمنٹ تو پہلے ہی جاگیردارانہ کلچر کی نمائندہ بن کر رہ گئی ہے۔ اسے عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ بنانے کے لیے نظام انتخاب میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ نئے آرڈیننس سے عوامی رائے پر ایک اور قدغن لگانے کی کوشش کی گئی ہے اور پارٹی سربراہوں کی آمریت کو پکا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسے قبول نہیں کیا جا سکتا‘‘۔