رپورٹ:عمران خان:
وفاقی حکومت کے متعلقہ حکام کی نااہلی اورغیر سنجیدگی نے پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کے 700 سے زائد ملازمین کو فاقوں پر مجبورکردیا ۔ یہ ملازمین گزشتہ 6 ماہ سے تنخواہوں اور پنشن سے محروم ہیں۔ سینٹرل کاٹن کمیٹی کے مختلف شہروں میں قائم دفاتر میں متعلقہ حکام کی اس بے حسی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت براہ راست سینٹرل کاٹن کمیٹی کو فنڈز جاری کرکے یہ مسئلہ آسانی سے حل کرسکتی ہے۔ جبکہ ٹیکسٹائل ملوں سے فی گانٹھ 50 روپے سے جمع ہونے والا فنڈ حکومتی خزانے میں جمع کرلیا جائے۔ تاہم وفاقی حکومت اور ٹیکسٹائل ملوں کی ایسوسی ایشن اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق ملک میں کپاس کے حوالے سے اہم تحقیقاتی ادارے پاکستان کاٹن سینٹرل کمیٹی کے اربوں روپے دبا لئے گئے ہیں۔ کپاس کی فصل کے فروغ اور ترقی سے متعلق ادارے کے ماتحت تین اہم اور بڑی درس گاہوں میں بھی کام ٹھپ ہوگیا ہے۔ جبکہ ادارے کے 700 سے زائد ملازمین تنخواہوں اور پینشن سے محروم ہونے کے سبب فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ معلومات کے مطابق وفاقی حکومت کی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی نا اہلی اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت سے کپاس کا اہم تحقیقاتی ادارہ پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی) سنگین معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا ہے۔
قانونی طور پر آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشنز کاٹن سیس کی مد میں پی سی سی سی کو فی گانٹھ 50 روپے کے حساب سے دینے کی پابند ہے۔ جس سے اس اہم تحقیقاتی ادارے کے ملک بھر کے ملازمین کی تنخواہوں اور تحقیقاتی انسٹیٹیوٹ چلانے کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ تاہم آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما) کی جانب سے سنٹرل کاٹن کمیٹی کے اربوں روپے جاری نہیں کئے جا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ سینٹرل کاٹن کمیٹی کے ملازمین کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں۔ اور مختلف شہروں میں قائم کمیٹی کے دفاتر پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
سینٹرل کاٹن کمیٹی کے مظاہرے میں شریک خاکروب کی حیثیت سے کام کرنے والی ملازمہ نوری کا کہنا تھا کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ اذیت کا شکار ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ حکومت میں آکر نوکریاں دے گی۔ لیکن ان کی تو تنخواہیں ہی بند ہوگئی ہیں۔ یہ سراسر ظلم ہے۔ وہ وزیر اعظم، وزیر صنعت و تجارت اور وزیر برائے خوراک سے مطالبہ کرتی ہیں کہ ان کی تنخواہیں جاری کرنے کیلیے فنڈز کا معاملہ حل کیا جائے۔ ورنہ وہ لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو جائیں گے۔
ادارے کے ملازم بشیر احمد فیلڈ اسسٹنٹ کا کہنا تھا کہ اب پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ انہوں نے کئی مہینوں تک پریشانی برداشت کی ہے۔ تاہم اب وہ اتنے مقروض ہوچکے ہیں کہ انہیں مزید قرضہ بھی کوئی نہیں دے رہا۔ جبکہ مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ یا تو مظاہروں کا سلسلہ اسلام آباد تک لے جائیں یا پھر اپنے دفتروں میں خودکشیاں کر لیں۔ لیاقت علی آفس سپرٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ وہ ایک اہم وفاقی ادارے کے ملازم ہیں، جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہاں پر شوگر مافیا اور کاٹن مافیا سمیت کئی مافیا ہیں جن کا حکومت پر اثر رسوخ واضح ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ٹیکسٹائل کمپنیاں جو ہر کپاس کی گانٹھ پر ادارے کو چلانے کے لئے فنڈز کی مد میں 50 روپے دینے کی پابند ہیں، وہ فنڈز روک دیں۔ کیا یہ کمپنیاں ریاست سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ جبکہ انہیں حکومتی عہدیداروں کے کردار پر بھی حیرت ہو رہی ہے جو خاموش ہیں اور بے حسی سے ملازمین کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
مکینک کی حیثیت سے کام کرنے والے ملازم مائیکل کا کہنا تھا کہ 6 ماہ سے ان کی تنخواہیں رکی ہوئی ہیں۔ اب ان کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے وہ حکام بالا کے وعدوں پر رکے ہوئے تھے اور تنخواہیں ملنے کی امید پر قرض لے کر گھر کے معاملات چلا رہے تھے۔ لیکن اب صورتحال اذیت ناک ہوچکی ہے۔ اکرم نوناری فیلڈ اسسٹنٹ کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور ملازمین کو تنخواہیں اور پینشن کی ادائیگی کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
سینٹرل کاٹن کمیٹی سے ملنے والی معلومات کے مطابق کاٹن سیس ایکٹ 1923ء کے تحت حکومت پاکستان کے توسط سے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی) جیسا اہم قومی نوعیت کا ادارہ 1948ء میں تشکیل دیا گیا۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی قومی سطح پر روئی کی تحقیق اور ترقیاتی پروگراموں کو انجام دینے والا واحد قومی ادارہ ہے۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے گورننگ بورڈ میں پبلک و پرائیویٹ اداروں سے تعلق رکھنے والے ممبران کی تعداد اس وقت سترہ ہے۔ اس بورڈ میں پبلک و پرائیویٹ سیکٹرز کے نمائندوں کے علاوہ چاروں صوبوں سے نامور ترقی پسند کاشتکاروں کو بھی نمائندگی دی گئی ہے۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کے بنیادی مقاصد میں کپاس کی تحقیق و ترقی ہے۔ کپاس کی نئی نئی اقسام تیار کرنا، کپاس کی پیداوار ی ٹیکنالوجی پر تحقیق، اس کی مارکیٹنگ، مینو فیکچرنگ، کپاس کے اعداد و شمار اور تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے کپاس سے متعلق ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا جہاں سب یکجا ہو کر ملکی کپاس اور کپاس کی مصنوعات پر گفتگو کر سکیں اور مناسب حکمت عملی تشکیل پائی جا سکے۔
صوبائی حکومتوں کے ساتھ کپاس کی تحقیق و ترویج میں تکنیکی و غیر تکنیکی معاونت فراہم کرنا، کپاس پر تحقیقات اور ترقیاتی پروگراموں کے نفاذ اور نگرانی میں وزارت خوراک برائے قومی تحفظ وتحقیق کی مددکی فراہمی وغیرہ پی سی سی سی کے فرائض میں شامل ہے۔ بنیادی مقاصد کے حصول کے لئے پی سی سی سی کے تین بڑے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کاٹن ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی، سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان اور سنٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ سندھ قائم کئے گئے اور ساتھ ہی کپاس کے فروغ کے لئے چاروں صوبوں میں مختلف مقامات پر کاٹن ریسرچ اسٹیشنز قائم کئے گئے۔
پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی ملک کی وہ واحد کپاس کی درسگاہ ہے۔ جہاں سے نہ صرف پاکستان کے بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک کے کپاس کے ماہرین نے عملی تربیت حاصل کی ہے۔ پی سی سی سی کے سائنسدانوں نے پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کا ذریعہ آمدن کاٹن سیس ہے۔ جو 50 روپے فی گانٹھ ہے جس میں 170 کلو کاٹن کی پھٹی ہوتی ہے۔ یہ رقم کاٹن سیس ایکٹ کے تحت ملک میں موجود تمام ٹیکسٹائل ملز پی سی سی سی کو دینے کی مجاز ہیں۔ اس فنڈز سے حاصل ہونے والی آمدن ملکی سطح پر کپاس کی تحقیق و ترقی پر خرچ ہوتی ہے۔ 50 روپے فی گانٹھ کی ادائیگی ٹیکسٹائل ملز ہی ادا کرتی ہیں۔ مگر در حقیقت یہ عام صارف کی جیب ہی سی وصول ہوتا ہے۔ کیونکہ کاٹن ملزم مالکان اپنی مصنوعات کی فروخت میں یہ رقم شامل کرتے ہیں۔ یہ فنڈز زرعی تحقیق کے لیے نا کافی ہے۔ جبکہ گزشتہ تین برسوں سے ٹیکسٹائل ملزنے کاٹن سیس ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کاٹن سیس کی ادائیگی بند کی ہوئی ہے۔ جس سے پی سی سی سی کی مالی مشکلات میں بہت حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
ذرائع کے بقول اگرآل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشنز اپنے ذمے پی سی سی سی کی واجب الادا کاٹن سیس کی رقم جو تقریباً 2 ارب روپے سے زائد بنتی ہے، ریلیز کر دے تو پی سی سی سی کی مالی مشکلات کافی حد تک کم ہو سکتی ہیں۔ ارباب اختیار کو اس معاملے میں فوری اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔