علی مسعود اعظمی:
مودی سرکار اور قابض بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں شہید کیے جانے والے نوجوان اطہر مشتاق وانی کی میت طلب کرنے پر والدین کو دہشت گرد قرار دے دیا۔
دسمبر 2020ء میں بھارتی افواج کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں دو دوستوں کے ہمراہ شہید کیے گئے اطہر مشتاق کے والدین نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ شہید بیٹے کی لاش خاندان کے حوالے کرنے کے مطالبے پر اطہرکے والد پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جبکہ شہید کی والدہ کو دھمکایا جا رہا کہ اطہر وانی کی میت کے مطالبے کو میڈیامیں اُجاگر کیا تو پورے خاندان کا انکائونٹر کر دیا جائے گا۔ دھمکیوں کے باوجود مظلوم والدین کا کہنا ہے کہ چاہے ہماری جان چلی جائے، ہم اپنے بیٹے کی میت خاندان کے حوالہ کرنے کا مطالبہ ترک نہیں کریں گے۔
شہید کے والد مشتاق وانی پر غیرقانونی طور پر مظاہروں کے انعقاد، ملک دشمن عناصر کی معاونت اور ریاست کے خلاف پرچار کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اگرچہ انہیں تاحال حراست میں نہیں لیا جا سکا ہے، لیکن ان کی گرفتاری کیلیے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
’’الجزیرہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اطہر مشتاق وانی کو دیگر دو نوجوانوں سمیت ایک جعلی انکائونٹر میں30 دسمبر2020ء کو بارہ مولہ ڈسٹرکٹ میں شہید کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اطہر کی لاش کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ گمنام قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ لیکن اطہر کے والدین بیٹے کا جسدِ خاکی حاصل کرنا اور اپنے گائوں کے قبرستان میں باکرام و اعزاز دفن کرنا چاہتے ہیں۔ شہید اطہر کے والد مشتاق وانی نے بیٹے کی تدفین کیلئے قبر بھی کھدوائی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اپنے بچے کے بھارتی افواج کے ہاتھوں بے گناہ قتل کی مذمت اور لاش کی حوالگی کا مطالبہ کرنا ترک نہیں کروں گا۔ مشتاق وانی نے ’’عرب نیوز‘‘ سے گفتگو میں بھارتی افواج کو چیلنج کیا کہ میں نے بھارتی حکام سے کو کہا کہ اگر ان کے پاس میرے بیٹے کی کسی غیر قانونی سرگرمی یا دہشت گردی کے ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔ لیکن اب تک اس چیلنج پر بھارتی افواج نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ البتہ الٹا ہمیں ’’دہشت گرد‘‘ بنا دیا گیا ہے۔
کشمیری میڈیا کے مطابق مشتاق وانی اور ان کی اہلیہ نے بھارتی افواج اور پولیس کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس معاملہ پر اپنی جان کی پروا کئے بغیر بھارتی افواج کا کریہہ چہرہ دنیا کو دکھاتے رہیں گے۔ مشتاق وانی اور ان کے خاندان کے احتجاج کے باوجود بھارتی افواج کے دبائو پر مقامی انتظامیہ نے تینوں شہیدوں کی میتیں ضلع پلوامہ سے سو کلومیٹر دور ایک قبرستان میں دفن کر دی تھیں اور وہاں پہر ہ لگا دیا گیا۔ شہید اطہر مشتاق گیارہویں جماعت کا طالب علم اور والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔
شہید کے والد مشتاق وانی نے حکام سے متعدد بار تحریری درخواست کی کہ ان کے بیٹے کی لاش گاؤں کے آبائی قبرستان میں دفن کرنے کیلئے ان کے حوالہ کی جائے۔ لیکن بھارتی کٹھ پتلی کشمیری پولیس نے شہید کے والد اور ان کے 6 دیگر رشتہ داروں کے خلاف خصوصی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے ہیں۔ ایک مقدمہ مشتاق وانی کیخلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت بھی درج کیاگیا ہے، جس میں عدالت سے ضمانت حاصل نہیں کی جاسکتی۔
کشمیری صحافی منیر احمد کے مطابق بھارتی حکومت نے جعلی انکائونٹرز میں شہید نوجوانوں کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے ظالمانہ پالیسی کے تحت گمنام قبرستانوں میں دفن کرنا شروع کردیا ہے ۔ جبکہ شہیدوں کے جسدِ خاکی طلب کرنے والے خاندانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسا ہی کیس سولہ اطہر مشتاق اور دیگر دو نوجوانوں کا ہے جنہیں 30 دسمبر 2020ء کو بھارتی افواج نے جرم بے گناہی میںگولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔
جعلی انکائونٹر کے بعد بھارتی حکام نے شہید نوجوانوں کو ان کے آبائی گاؤں سے 115 کلومیٹر دور ایک گمنام قبرستان میں دفنا دیا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر شہید اطہر وانی کے والد مشتاق احمد کی ویڈیوز وائرل ہوچکی ہیں۔ ویڈیوز میں وہ قابض بھارتی افواج سے اپنے بیٹے کی لاش کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مشتاق احمد نے میڈیا سے گفتگو میںکہا ہے کہ بھارتی فوج اور پولیس مجھے خاموش کرنا چاہتی ہے لیکن میں خاموش نہیں رہوں گا اور انصاف کے حصول کیلئے آخری سانس تک جدوجہد کرتا رہوں گا۔