سپریم کورٹ نے اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے کے معاملے پر وزیراعظم عمرا ن خان کے جواب کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا ،وزیراعظم عمرا ن خان نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں خبر کی تردید کر دی ہے ۔
سپریم کورٹ میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ زینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیاوزیراعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟ وزیراعظم کوآئینی تحفظ حاصل ہے،وزیراعظم اس وقت جوابدہ ہیں جب معاملہ ان سے متعلق ہو، حکومت جوابدہ ہوتووزیراعظم سے نہیں پوچھاجاسکتا، اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیرقانونی حکم جاری نہ کرنے دیاکریں۔
ٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پراعتراض کردیا، جسٹس عمر عطا نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکریٹری سے مانگاگیاتھا، حکومت سیکریٹریزکے ذریعے چلائی جاتی ہے، جواعتراض آج کررہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آئینی سوال کسی بھی سطح پراٹھایاجاسکتا ہے ،کسی رکن اسمبلی کوترقیاتی فنڈزنہیں دیے جا سکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جج صاحب اوروزیراعظم ایک مقدمے میں فریق ہیں۔
وزیراعظم عمرا ن خان نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ ز دینے کی خبر کی تردید کر دی ہے جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کاجواب کافی مدلل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کل مجھے واٹس ایپ پرکسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں،کیاسڑک کی تعمیرکیلیے مخصوص حلقوں کوفنڈزدیے جاسکتے ہیں،کیا حلقے میں سڑک کیلیے فنڈزدیناقانون کے مطابق ہے ،ہم دشمن نہیں،عوام کے پیسے اورآئین کے محافظ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ واٹس ایپ والی دستاویزات آپکی شکایت ہے،جائزہ لیں گے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں میں صرف نشاندہی کر رہا ہوں۔