امت رپورٹ/ وجیہ احمد صدیقی
کے ٹو سر کرنے کے دوران لاپتا ہونے والے محمد علی سدپارہ اور ان کے دو غیر ملکی ساتھیوں کی تلاش مہم گزشتہ روز بدھ کو بھی خراب موسم کے باعث ممکن نہیں ہو سکی۔ ان کے موبائل فون کے آخری سگنل کے ٹو کے انتہائی خطرناک مقام ’باٹل نیک‘ سے موصول ہوئے تھے۔ تینوں کوہ پیمائوں کے اہلخانہ اب بھی اپنے پیاروں کی زندگی کیلئے پر امید ہیں۔ جبکہ الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق کے ٹو بیس کیمپ پر موجود تمام غیر ملکی کوہ پیماؤں نے موسم کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمائی مہم جوئی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق اسکردو کے اعلیٰ حکام کے ساتھ گلگت بلتستان کے سینئر کوہ پیمائوں کا اجلاس دوگھنٹے تک جاری رہا۔ جس میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں فوجی طیاروں کی مدد حاصل کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔ یاد رہے کہ خراب موسم مسلسل محمد علی سد پارہ اور ان ساتھیوں جان سنوری اور پابلو موہر کی تلاش اور انہیں بچانے کے مشن میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ ان لوگوں کے موبائل فون کے سگنل آخری بار جمعے کی صبح کے ٹو کی باٹل نیک سے موصول ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق سی ون تھرٹی کو بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے بھی صرف فضائی جائزہ ہی لیا جا سکے گا۔ کوہ پیمائوں کی تلاش کے اس مشن میں کئی مقامی اور غیر ملکی کوہ پیمائوں میں شمشال سے فضل علی اور جلال، اسکردو سے امتیاز حسین اور اکبر علی، رومانیہ کے الیکس گاون کے علاوہ معروف کوہ پیما نذیر صابر، چھنگ داوا شرپا، شامل ہیں۔ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق سرچ ٹیم موسم کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ جیسے ہی موسم بہتر ہوگا۔ سرچ ٹیم ان کی تلاش میں نکل جائے گی۔ بدھ کی دوپہر تک کے ٹو کا موسم خشک اور سخت سرد تھا۔ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت منفی 35 ڈگری سینٹی گریڈ تھا اور کم سے کم منفی41 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ جمعے کو ہوائوں کی شدت میں کمی آنے کا امکان ہے۔ سدپارہ کے ساتھیوں کی تلاش میں ہیلی کاپٹر کو اس لیے مشکل پیش آئی کہ باٹل نیک کی بلندی 8,200 میٹر ہے اور آرمی ہیلی کاپٹر 7,800 میٹر کی بلندی تک جاسکتا ہے۔ کے ٹو کی بلندی 8 ہزار 611 میٹر ہے۔ اس بلندی پر سی ون تھرٹی طیارہ ہی ان کو تلاش کرسکتا ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ سی ون تھرٹی 8000 میٹر کی بلندی تک پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کے ٹو میں 8000 میٹر کے بعد موت کا علاقہ یا ڈیتھ زون شروع ہو جاتا ہے۔ اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہو جاتا اور جسم مفلوج ہوجاتا ہے۔ موسم سرما میں یہاں 70 کلومیٹر سے زائد کی رفتار سے چلتی تیز ہوائیں، منفی 50 سے منفی 60 تک درجہ حرارت اور برفانی طوفان یعنی برفانی غبار معمول کی بات ہے۔ اس لیے کوہ پیماؤں کو خصوصی ہدایات ہوتی ہیں کہ یہاں سے جلد سے جلد واپسی اختیار کریں۔
ادھر وزیر اطلاعات گلگت بلتستان کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا کہ کے ٹو کی چوٹی پر لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش میں آج موسم کی خرابی کے سبب مشکلات کا سامنا ہے اور کے ٹو کے قرب و جوار میں برفباری اور گہرے بادلوں کے سبب کوئی پرواز ممکن نہیں ہو سکی۔ فضائی سرچ آپریشن کے لئے پاکستانی فضائیہ سے جدید آلات کی فراہمی کی درخواست کی جا چکی ہے۔ جبکہ زمینی ٹیمیں بیس کیمپ میں موسم موافق ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔ امت کو دستیاب ایک اور اطلاع کے مطابق چونکہ سیٹلائٹ فون کا آخری سگنل پانچ فروری شام ساڑھے چھ بجے ملنا بند ہوئے۔ ساجد سد پارہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد اور ان کی ٹیم کو باٹل نیک میں آٹھ ہزار کی بلندی پر چھوڑ کر آکسیجن سلینڈر میں خرابی کی وجہ سے واپس نیچے کی طرف آگئے تھے۔ اس لیے لاپتہ کوہ پیماؤں کے متوقع ٹریسز کیمپ نمبر چار سے اوپر باٹل نیک اور آئس مونٹین کے درمیان ہی ملنے کے امکانات ہیں۔ مقامی لوگوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ قوی امکانات ہیں کہ علی سد پارہ کی ٹیم کے ساتھ حادثہ سمٹ سے واپسی پر ہوا ہو۔ کیونکہ باٹل نیک کراس کرنے کے بعد علی سد پارہ جیسے سخت جان کوہ پیما کے لئے چند سو میٹر کسی مشکل کا سبب نہیں بنے ہوں گے۔ ایک سوال پر بتایا گیا کہ اوپر چڑھتے وقت حادثہ اس صورت میں ہو سکتا ہے، کہ اگر ہوا تیز اور مخالف ہو۔ تاہم تجربہ کار کوہ پیما جس نے آکسیجن سلینڈر کا ریگولیٹر خراب ہونے پر اپنے بیٹے کو رسک میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھا اور سمٹ سے چھ سو میٹر کے فاصلے سے اسے واپس بھجوا دیا، تو یقیناً وہ اپنی ٹیم کے لئے بھی رسک نہیں لیتے۔ واپسی پر اترائی کے وقت اندھیرا بھی تھا۔ عین ممکن ہے اس وقت کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔
لاپتا ہونے والے محمد علی سدپارہ ایک تجربہ کار کوہ پیما تھے اور انہیں 8 ہزار میٹر سے اونچی 14 میں سے 8 چوٹیاں سَر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ ’کے ٹو‘ کے مشکل ترین حصے بوٹل نیک تک پہنچ چکے تھے۔ یہاں ان کے ہم سفر بیٹے ساجد کے آکسیجن ٹینک کا ریگولیٹر خراب ہوا تو انہوں نے اسے واپس بیس کیمپ کی طرف بھیج دیا۔ ان لاپتا کوہ پیماؤں کے حوالے سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ چوٹی سَر کرچکے تھے اور واپسی پر ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا۔ کیونکہ ساجد نے انہیں دن کے 10 بجے بوٹل نیک پر دیکھا تھا۔ جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ بوٹل نیک سے اوپر بھی انتہائی خطرناک حصہ ہے اور حادثہ وہاں بھی پیش آسکتا ہے۔ آج تک ’کے ٹو‘ سر کرنے کی کوشش میں 87 کوہ پیما جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان میں سے 91 فیصد اموات بوٹل نیک میں ہوئیں۔
واضح رہے کہ دنیا کے اٹھارہ ممالک کے ساٹھ کوہ پیمائوں نے گزشتہ سال کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس مہم کے دوران اس سال کے شروع میں نیپال کے دس کوہ پیمائوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ یہ کوہ پیما تاریخ میں پہلی مرتبہ سردیوں میں کے ٹو کی چوٹی پر پہنچے۔ موسم سرما کی مہم جوئی میں پاکستان کے محمد علی سد پارہ، ان کا بیٹا ساجد سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے پابلو موہر بھی شریک تھے۔ الپائن کلب کے سیکریٹری کرار حیدری نے میڈیا کو ایک بیان میں بتایا کہ ’تلاش کا مشن جاری رہے گا۔ لیکن موسم کی خراب صورتحال اس عمل کو مشکل بنا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ موسم بہتر ہو جائے گا۔
دوسری جانب تینوں کوہ پیماؤں کے اہلخانہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے ہر فرد کا ان کی حمایت کے لیے شکریہ ادا کیا اور اُمید ظاہر کی کہ ریسکیو مشن جلد بحال ہوجائے گا۔ بیان میں کہا گیا کہ ’ہم ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے جان اسنوری، محمد علی اور پی موہر کی کوہ پیمائی میں دلچسپی لی۔ ان کی خیریت کے حوالے سے اپنی فکرمندی کا اظہار کیا۔ جنہوں نے مدد کی پیشکش کی (خصوصاً رومانیہ کے کوہ پیما ایلیکس گوان) اور وہ جنہوں نے ان کی حفاظت کے لیے دعائیں کیں اور تلاش کے لیے مذکورہ مقام پر ڈرونز کے استعمال کے خیالات پیش کیے۔ بیان میں کہا گیا کہ برطانوی نژاد امریکی کوہ پیما وینیسا اوبرائن جو پاکستان میں خیر سگالی کی سفیر بھی ہیں اور جان اسنوری کے ساتھ کے ٹو بھی سر کرچکی ہیں، وہ ایک ورچوئل بیس کیمپ کے ذریعے لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش اور امداد کی کوششوں میں تعاون اور ان کے خاندان کو معاونت فراہم کر رہی ہیں۔