رپورٹ: اقبال اعوان
شہروں کی بلند و بالا عمارتوں اور مکانات میں رہنے والے لوگ طبّی خواص کے حامل بعض پودے گھروں میں باآسانی لگا کر مچھر، مکھی اور دیگر حشرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ان پودے کی خوشبو سے کیڑے مکوڑے دور بھاگتے ہیں۔ جبکہ ان کی قیمتیں بھی زیادہ نہیں ہیں۔ مہنگی اور غیر معیاری مچھر، مکھی مار دوائوں سے پریشان شہری اس سہولت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے نباتاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض پودوں کی خوشبو سے ناگواری کے باعث کیڑے مکوڑے قریب نہیں آتے۔ کراچی میں نرسری بزنس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ پودے خریدنے والے لوگ کہتے ہیں کہ وہ ٹوٹکے کے طور پر انہیں رکھ رہے ہیں۔ ان میں بعض پودے سیزن کے ہوتے ہیں اور بعض سال بھر لگتے ہیں۔ واضح رہے کہ سندھ اور شہری حکومتوں کی نا اہلی سے جہاں کراچی کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ وہیں اس گندگی سے مچھر، مکھی سمیت بیماریاں پھیلانے والے دیگر کیڑے مکوڑوں کی بھرمار ہوچکی ہے۔ ملیریا، ڈینگی، چکن گونیا سمیت کئی بیماریوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امیر طبقہ تو مستند کمپنیوں کی دوائوں کا اسپرے اور استعمال کرتا ہے۔ لیکن مسئلہ درمیانے اور نچلے طبقے کا ہے جو کیڑے مکوڑے مارنے یا بھگانے والی مختلف سستی دوائیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ گھروں میں مچھر دانی کا انتظام بھی کم ہوتا ہے۔ عام شہری مچھر بھگانے والے کوائل، ٹکیا، بلب کے ہولڈر کے ساتھ لگانے والا کیمیکل لیکوئیڈ وغیرہ کرتے ہیں۔ لیکن بے روزگاری اور معاشی پریشانی کے باعث لوگ تو دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہیں۔ ایسے میں مچھر مار کوائل یا دیگر دوائیاں نہیں لے سکتے، جس کے نتیجے میں بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بیشتر شہری پھولوں کے پودے خریدنے کے شوقین ہیں۔ گھروں میں اگر لان نہیں تو فلیٹ کی بالکونی یا ٹیرس میں گملے رکھتے ہیں۔ نرسری میں رکھے گملوں میں بعض پودے طبّی لحاظ سے کافی فائدہ مند ہیں۔ یہ جہاں ماحول کو معطر رکھتے ہیں، وہیں کیڑے مکوڑے دور رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ شہری اگر دیگر پودوں کے ساتھ ایک دو پودے ایسے بھی گھر میں رکھ لیں تو خوبصورتی میں اضافے سمیت مکھی، مچھروں سے نجات مل سکتی ہے۔
اس سلسلے میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ بوٹنی کے استاد محمد توقیر نے’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایسے پودوں کی تعداد کافی ہے جو مکھی، مچھر اور دیگر کیڑے مکوڑوں کے دشمن کہلاتے ہیں۔ ان پودوں کی خوشبو اور مخصوص بُو حشرات کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔ اس طرح ہمیں کیڑے مکوڑوں سے کافی حد تک نجات مل جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریسرچ کے دوران ایسے کئی پودے سامنے آئے۔ ان میں لیونڈر نامی جامنی پھول دینے والا خوبصورت پودا نسبتاً مہنگا ہے۔ جبکہ زیادہ تر سستے داموں مل جاتے ہیں۔ اگر کمرے میں ان کو رکھا جائے تو خوبصورتی کے ساتھ یہ حشرات بھگانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اجوائن کا پودا اطراف میں جو مخصوص بُو دیتا ہے، اس سے مکھی دور بھاگتی ہے۔ اسی طرح آج کل گیندے کے پھول کا سیزن چل رہا ہے۔ مختلف رنگوں کے گیندے کے پھول کے پودے سستے ہونے پر ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اس کی تیز خوشبو سے کیڑے مکوڑے قریب نہیں آتے ہیں۔ اسی طرح گلیڈز کے پھول بہت تیز خوشبو پیدا کرتے ہیں۔ اگر کمرے میں اس کی ڈنڈیاں پھول سمیت برتن میں رکھی جائیں تو مکھی، مچھر اور دیگر کیڑے مکوڑے نہیں آتے۔ ان کا کہنا تھا کہ نرسریوں پر یہ پودے با آسانی سستے مل جاتے ہیں۔
یونیورسٹی روڈ پر مختلف بڑی نرسریوں کے سروے میں معلوم ہوا کہ لیونڈر نامی جامنی پھول کا پودا گملے سمیت ڈھائی سو روپے سے زائد کا فروخت ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں اس خوشبو سے پرفیوم اور اروما تھراپی کیلئے تیل نکالا جاتا ہے۔ اس کے جامنی رنگ کے پھولوں سے نہ صرف گھر کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گا بلکہ مچھروں اور دیگر کیڑے مکوڑوں سے نجات ملے گی۔ اسی طرح گملوں میں لگے گلابی، پیلے، نارنجی اور جامنی رنگوں کے پھولوں والے گل دائودی سے جہاں گھر خوبصورت ہوتا ہے، وہیں ان پھولوں کا کیمیکل، پائر تھرم کیڑوں سے چھٹکارا دلواتا ہے۔ یہ چیونٹی، پسو، مکڑی، لال بیگ، کھٹمل اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کو بھی دور بھگاتے ہیں۔ چھوٹے گملے میں اس کا پھول والا پودا 50 روپے تک با آسانی مل جاتا ہے۔ نرسریوں میں پودینے کا پودا بھی 50 روپے تک مل جاتا ہے۔ پودینے میں منتھول کا جز زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے مچھر، مکھی اور اڑنے والے کیڑے مکوڑے دور بھاگتے ہیں۔ لہسن کا پودا بھی کئی بیماریوں کا علاج ہے۔ اس کا اچار، چٹنی بنائی جاتی ہے اور پیسٹ بنا کر فریج میں بند بوتل میں رکھا جاتا ہے اور ہر سالن میں ذائقے کیلئے ڈالا جاتا ہے۔ اس کے پودے کی مخصوص تیز بُو سے حشرات دور بھاگتے ہیں۔ لہسن کا پودا چھوٹے گملے میں 50 روپے تک مل جاتا ہے۔ اسی طرح لیمن گراس جس کو چائنا گھاس کہا جاتا ہے، اس کا چھوٹا سا گملا کمرے میں رکھ کر مکھی، مچھروں اور دیگر حشرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اس کی چائے بھی بنا کر نزلہ زکام کو ختم کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا گملا بھی 50 روپے تک کا مل جاتا ہے۔ تلسی کا پودا چھوٹے گملے میں 100 روپے تک مل جاتا ہے۔ اس کے پودے کیڑے مکوڑوں کو بھگانے میں اپنی مخصوص بُو کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ایک پودا نیاز بُو کا بھی ہے جس کی ٹہنیاں پھول سمیت قبروں اور مزاروں پر رکھی جاتی ہیں۔ اس کا چھوٹا گملا 100 روپے تک مل جاتا ہے۔ اس کے سوکھے پودے سے کالے بیج حاصل ہوتے ہیں جو (تخملنگا) کے نام سے شربت میں ڈالے جاتے ہیں اور اس کے کئی طبی خواص ہیں۔ اس پودے کے اطراف بھی کیڑے مکوڑے، مکھی، مچھر نہیں آتے ہیں۔ ایلو ویرا کا پوڈا گملے میں 150 روپے تک مل جاتا ہے۔ اس کی مخصوص بُو بھی کیڑے مکوڑوں کیلئے ناگوار ہوتی ہے۔ کڑھی پتا یا تیز بات کے پتوں کی ٹہنیوں کا گچھا سبزی مارکیٹ میں 10 سے پندرہ کا مل جاتا ہے۔ اس کی بُو بہت تیز ہوتی ہے اور گملے میں اس کا پودا 150 روپے تک مل جاتا ہے۔
ایک نرسری مالک محمد ارشاد کا کہنا تھا کہ 40 سال سے یہ کام کر رہا ہوں۔ کئی لوگ اس طرح کے پودے لے جاتے ہیں کہ گھروں میں کیڑے مکوڑے، مکھی مچھر بھگانے کے لئے رکھیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی صفائی ستھرائی، حفاظتی جالیوں اور دیگر اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ کی نرسری کے ذمہ دار عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ جامعہ کراچی اور دیگر جامعات کے پودوں کے ماہر یہاں آتے ہیں۔ اان سے پتا چلا تھا کہ بعض پودوں کی خوشبو سے مکھی، مچھر اور دیگر کیڑے مکوڑے دور بھاگتے ہیں۔