حضرت عمرو بن عبسہؓ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں، میں اپنی قوم کے خداؤں سے متنفر تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ میں اہل کتاب میں سے ایک شخص سے ملا، جو وادی القریٰ کے پاس واقع یہودیوں کے مسکن تیما کا رہنے والا تھا اور اسے بتایا: میں بتوں کی پوجا کرنے والی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک بار ہمارا قبیلہ ایسی جگہ قیام پذیر ہوا، جہاں کوئی صنم نہ تھا۔ ایک شخص نکلا اور چار پتھر اٹھا لایا، تین پتھروں کا چولہا بنا کر اس پر ہنڈیا چڑھا دی اورسب سے عمدہ اور خوب صورت نظرآنے والے چوتھے پتھر کو معبود بنا کر پوجنے لگا۔ ممکن تھا کہ کوچ کرنے سے پہلے اسے اس سے اچھا پتھر ملتا تو پہلے صنم کو پھینک کراس کی بندگی کرنے لگتا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ معبودان باطلہ ہیں، نفع پہنچا سکتے ہیں نہ ضرر۔ آپ مجھے اس دین سے بہتر دین کی راہ سجھائیے۔
اس نے بتایا کہ مکہ سے ایک شخص ظاہرہو گا، اپنی قوم کے معبودوں سے بے زاری کا اظہار کرے گا اورانہیں چھوڑ کر معبود واحد کی طرف بلائے گا۔ وہی بہترین دین پیش کرے گا۔ جب تو اس کا کلام سن لے تو اس کی پیروی کرنا۔ اب مکہ جانا ہی میرا مقصد بن گیا۔ میں پوچھتا رہتا: کیا وہاں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے؟ پھر وہ وقت آیا کہ ایک سوار مکہ سے آیا اور اس نے وہی واقعات سنائے جو میں مذکورہ اہل کتاب سے سن چکا تھا۔
میں نے رخت سفر باندھا اور مکہ پہنچ گیا۔ حضرت جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت عمرو بن عبسہؓ دونوں کہا کرتے تھے: ’’میں نے رسول اقدسؐ کے ساتھ اپنے آپ کو چوتھا مسلمان پایا ہے۔ مجھ سے پہلے نبی اکرمؐ، ابوبکرؓ اور بلالؓ کے علاوہ کوئی (بڑی عمر کا مرد) اسلام نہ لایا تھا۔‘‘ دونوں حضرات یہی کہا کرتے، ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں سے دوسرا کب ایمان لایا۔ اہل صفہ میں شامل مشہور صحابی حضرت عرباض بن ساریہؓ بھی بنو سلیم سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بھی حضرت عمرو بن عبسہؓ کی طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایمان لائے۔
بدر، احد اور خندق کی جنگیں ہو چکیں تو حضرت عمرو بن عبسہؓ مدینہ پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کر لی۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ فتح خیبر کے بعد مدینہ آئے۔ (صحیح مسلم)