مولانا عبد الشکور دین پوریؒ فرماتے ہیں کہ میں چیچہ وطنی (پنجاب) سے تقریر کر کے جا رہا تھا، کچھ ساتھی ساتھ تھے۔ ایک آدمی کو دیکھا چار پائی پر بیٹھا تھا۔ مکھیاں اس کے پاس بھنبھنا رہی تھیں۔ عجیب حالت تھی، چہرہ زرد ہے، غبار و گرد ہے، درد و آلام کی تصویر، نہ اس کا کوئی ہمدرد ہے، مجھے سمجھ نہ آئی یہ کون ہے، میں اس کے قریب گیا تو کہنے لگا ’’او مولانا! ادھر تشریف لائیں۔‘‘
پیلے دانت ہڈیوں کا ڈھانچہ کمزور سانچہ، اس کے پاؤں پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا۔ اس نے کہا: مجھے عبرت سے دیکھو، ابھی آپ کی تقریر کی آواز یہاں آرہی تھی اور میں سن رہا تھا۔ کہنے لگا: یہاں میرا مکان تھا، دکان تھی، کاروبار تھا، میں کون تھا، میں ایک شیر جیسا انسان تھا، لیکن اب بھیک مانگتا ہوں اور اب کوئی بھیک بھی نہیں دیتا، بلکہ مجھ پر لوگ لعنت کرتے ہیں۔
کہنے لگا کہ غور سے سننا! عبرت کی بات بتا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کافی دیر تک روتا رہا۔ کہنے لگا: میں وہ بدنصیب ہوں، جس نے اپنی ماں کے چہرے پر جوتے مارے ہیں۔ کہنے لگا: ایک رات اپنے بدکردار غنڈے دوستوں کے ساتھ سینما دیکھنے گیا، واپسی پر گھر پہنچ کر ماں سے کھانا مانگا، تو ماں نے شرم دلائی کہ ساری رات آوارہ گردی کرتا ہے، کبھی پولیس پکڑتی ہے، نہ تمہارا باپ ایسا تھا نہ دادا اور نہ یہ تیری ماں ایسی ہے، تو کن غنڈوں میں پھنس گیا ہے۔
ماں نے اپنی ممتا کا غصہ اتارا مجھ پر، بس مجھے غصہ آیا اور جوتا لے کر ماں کو مارنے لگا، اس میں دو جوتے اس کے منہ پر لگے، ماں کے منہ سے اتنی آواز سنی: ’’اے عرش والے! اس لئے بچہ دیا تھا کہ آج میں جوتے کھا رہی ہوں، اے رب مجھے اپنے پاس بلالے، اب مزید جوتے نہیں کھا سکتی، اے رب جس نے ماں کے منہ پر جوتے مارے، اس کتے کو تو دنیا اور آخرت میں برباد کردے۔‘‘
کہنے لگا اس وقت ماں کی ان باتوں کو سن کر سو گیا، رات پاؤں میں ایک درد اٹھا، پاؤں لرزنے لگا، صبح تک پاؤں سوجھ کر بہت موٹا ہوگیا، ڈاکٹروں کو دکھایا، لاہور گیا، ملتان نشتر اسپتال گیا، آخر پاؤں کاٹنا پڑا اور پھر مسلسل پاؤں کٹتا گیا، کٹتا گیا! یہ کہہ کر اس نے اپنے پاؤں کے حصے سے کپڑا اٹھایا، بہت پیپ بہہ رہی تھی، کہنے لگا یہ زخم نہیں، ماں کی بددعا ہے، خدا کا قہر ہوا مجھ پر، ماں تو رو رو کر ایک ہفتے میں چل بسی۔ جائیداد گئی، مال گیا، بیوی گئی، بیٹے گئے، 4 سال سے یہاں پڑا ہوں، پیپ مسلسل بہہ رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہر وقت کتے کاٹ رہے ہیں، نیند نہیں آتی، گزرنے والے کہتے ہیں یہ وہ لعنتی ہے جس نے اپنی ماں کو جوتوں سے مارا ہے، کتے کی طرح میرے سامنے روٹی پھینکنے ہیں، بیٹوں کو بلاتا ہوں تو نہیں آتے، مجھے ابا نہیں کہتے۔
کہنے لگا مولانا مجھے روٹھا رب راضی کرادو، ماں کے ایک لفظ نے خدا کے قہر سے مجھے برباد کردیا۔ اتنا کہہ کر وہ گر پڑا اور روتا رہا، پھر اس نے آنکھ نہ کھولی۔ مولانا فرماتے ہیں، خدا کی قسم! یہ منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ خدایا تو ہمیں والدین کا فرمانبردار بنا دے۔ (مولانا عبدالشکور دین پوریؒ کی تقریر سے اقتباس، گلہائے رنگا رنگ)