فائل فوٹو
فائل فوٹو

ربّ کے در کا سوالی

طاہر جب خراسان کے گورنر تھے اور نیشاپور اس کا دارالحکومت تھا تو ایک لوہار شہر ہرات سے نیشاپور گیا اور چند دنوں تک وہاں کاروبار کیا۔ پھر اپنے اہل و عیال سے ملاقات کے لیے وطن لوٹنے کا ارادہ کیا اور رات کے پچھلے پہر سفر کرنا شروع کردیا۔ ان ہی دنوں طاہر نے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ شہر کے راستوں کو محفوظ بنائیں تاکہ کسی مسافر کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اتفاق ایسا ہوا کہ سپاہیوں نے اسی رات چند چوروں کو گرفتارکیا اورامیر خراسان (طاہر) کو اس کی خبر بھی پہنچا دی، لیکن اچانک ان میں سے ایک چور بھاگ گیا۔ اب یہ گھبرائے اگر امیر کو معلوم ہوگیا کہ ایک چور بھاگ گیا ہے تو وہ ہمیں سزا دے گا۔ اتنے میں انہیں سفر کرتا ہوا یہ (لوہار) نظرآیا۔ انہوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر اس بے گناہ شخص کوفوراً گرفتار کرلیا اور باقی چوروں کے ساتھ اسے بھی امیر کے سامنے پیش کردیا۔ امیر خراسان نے سمجھا کہ یہ سب چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں، اس لیے مزید کسی تفتیش و تحقیق کے بغیر سب کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔
نیک سیرت لوہار سمجھ گیا کہ اب میرا معاملہ صرف خدا جل شانہ کی بارگاہ سے ہی حل ہو سکتا ہے اور میرا مقصد اسی کے کرم سے حاصل ہوسکتا ہے، لہٰذا اس نے وضو کیا اور قید خانہ کے ایک گوشہ میں نماز پڑھنا شروع کردی۔ ہر دو رکعت کی بعد سر سجدہ میں رکھ کر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں رقت انگیز دعائیں اور دل سوز مناجات شروع کردیتا اورکہتا ’’اے میرے مالک! تو اچھی طرح جانتا ہے میں بے قصور ہوں‘‘۔ جب رات ہوئی تو طاہر نے خواب دیکھا کہ چار بہادر اور طاقتور لوگ آئے اور سختی سے اس کے تخت کے چاروں پایوں کو پکڑکر اٹھایا اورالٹنے لگے اتنے میں اس کی نیند ٹوٹ گئی۔ اس نے فوراً لا حول پڑھا۔ پھر وضو کیا اور اس احکم الحاکمین کی بارگاہ میں دو رکعت نماز ادا کی، جس کی طرف ہر شاہ و گدا اپنی اپنی پریشانیوں کے وقت رجوع کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ سویا تو پھر وہی خواب دیکھا، اس طرح چار مرتبہ ہوا۔ ہر بار وہ یہی دیکھتا تھا کہ چاروں نوجوان اس کے تخت کے پایوں کو پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور الٹنا چاہتے ہیں۔ امیر خراسان طاہر اس واقعہ سے گھبرا گئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ ضرور اس میں کسی مظلوم کی آہ کا اثر ہے۔ جیسے کسی صاحب دانش نے کہا ہے کہ ’’لاکھوں تیر اور بھالے وہ کام نہیں کر سکتے، جو کام ایک بڑھیا صبح کے وقت کردیتی ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ دشمنوں سے مردانہ وار مقابلہ کرنے اور انہیں شکست دینے والے، بوڑھی عورتوں کی بد دعا سے تباہ وبرباد ہوگئے۔‘‘
امیر خراسان نے رات ہی میں جیلر کو بلوایا اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ! تمہارے علم میں کوئی مظلوم شخص جیل میں بند تو نہیں کردیا گیا ہے؟ جیلر نے عرض کیا: عالیجاہ! میں یہ تو نہیں جانتا کہ مظلوم کون ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ میں ایک شخص کو دیکھ رہا ہوں، جو جیل میں نماز پڑھتا ہے اور رقت انگیز و دل سوز دعائیں کرتا ہے۔
امیر نے حکم دیا: اسے فوراً حاضر کیا جائے۔ جب وہ شخص امیر کے سامنے حاضر ہوا تو امیر نے اس کے معاملہ کی تحقیق کی۔ معلوم ہوا کہ وہ بے قصور ہے۔امیر نے اس شخص سے معذرت کی اور کہا: آپ میرے ساتھ تین کام کیجئے۔
نمبر1۔ آپ مجھے معاف کردیں۔
نمبر2۔ میری طرف سے ایک ہزار درہم قبول فرمائیں۔
نمبر3۔ جب بھی آپ کو کسی قسم کی پریشانی درپیش ہو تو میرے پاس تشریف لائیں تاکہ میں آپ کی مدد کر سکوں۔
نیک سیرت لوہار نے کہا: آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میں آپ کو معاف کردوں تو میں نے آپ کو معاف کردیا اور آپ نے جو یہ فرمایا کہ ایک ہزار درہم قبول کرلوں تو وہ بھی میں نے قبول کیا، لیکن آپ نے جو یہ کہا ہے کہ جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہو تو میں آپ کے پاس آؤں، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔
امیر نے پوچھا: یہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ وہ خالق و مالک جل جلالہ جو مجھ جیسے فقیر کے لئے آپ جیسے بادشاہ کا تخت ایک رات میں چار مرتبہ اوندھا کر سکتا ہے تو اس کو چھوڑ دینا اور اپنی ضرورت کسی دوسرے کے پاس لے جانا اصولِ بندگی کے خلاف ہے۔ میرا وہ کون سا کام ہے جو نماز پڑھنے سے پورا نہیں ہو جاتا کہ میں اسے غیر کے پاس لے جاؤں۔ یعنی جب میرا سارا کام نماز کی برکت سے پورا ہوجاتا ہے تو مجھے کسی اور کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔ (ریاض الناصحین ص:104, 105)