احمد نجیب زادے:
ڈنمارک کے بائیس سالہ نوجوان جیک کیلiے کورونا کا مذاق کرنا ڈرائونا خواب بن گیا۔
پولیس نے جیک کو گرفتارکرکے نہ صرف جیل میں قید کیا۔ بلکہ اس کا کورونا ٹیسٹ کروا کر اس کیخلاف پولیس کو ڈرانے کا مقدمہ بنا کر کیس کو عدالت عظمیٰ میں پہنچا دیا۔ نوجوان کو اگرچہ ضمانت پر رہائی دی جا چکی ہے تاہم اس کیخلاف کیس کا فیصلہ ہائی کورٹ نے پانچ ماہ قید کی سزا دے کر سنایا تھا۔ جس کو اس نوجوان نے سپریم کورٹ آف ڈنمارک میں چیلنج کر دیا ہے۔ جس کی مکمل سماعت کے بعد اب عدالت عظمیٰ کی جانب سے 18 فروری کو فیصلہ سنایا جائے گا۔
مقامی جریدے ’’دی لوکل‘‘کے مطابق ڈنمارک کی عدالت عظمیٰ رواں ہفتے جمعرات کو یہ فیصلہ سنائے گی کہ کیا کسی کے سامنے منہ اور ناک یا چہرہ ڈھانپے بغیر کھانسنا جرم ہے؟ ڈنمارک کی عدالتی تاریخ کا یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کی بنیاد پر کورونا مہم اور معاشرتی اقدار ظاہر ہوجائیں گی۔ کیونکہ ڈنمارک سمیت دنیا بھر میں ایسے مذاق کے کیسوں کی تعداد ہزارو ں میں بتائی گئی ہے۔ لوگ باگ اور بالخصوص نوجوان، دوستوں اور مہمانوں کی محفل میں بنا منہ ڈھانکے کھانس کر یا چھینک کر دوسروں کو ڈراتے ہیں کہ ان کو کورونا ہے۔ لیکن ڈنمارک میں ایک نوجوان کیلiے پولیس اہلکار کے منہ پر کھانسنا اورکورونا پکارنا مسئلہ بن گیا۔
یہ واقعہ پچھلے سال جون کو رونماہوا جب ڈنمارک کے زیادہ تر علاقے لاک ڈاؤن کی حالت میں تھے۔ اس وقت مقامی پولیس نے معمول کی ٹریفک چیکنگ کے دوران ایک گاڑی کو روکا جس کو بیس سالہ نوجوان جیک چلا رہا تھا۔ گاڑی سے نکلے بغیر چیکنگ سے قبل گفتگو کے دوران نوجوان جیک نے پولیس اہلکار کے منہ پر زور سے کھانسا اور استہزائیہ انداز میں چلا کر’’کورونا‘‘پکارا۔ اس غیر متوقع حرکت پر پولیس نے نوجوان کو گرفتار کرلیا اور بعد ازاں اس کا کورونا ٹیسٹ کروایا، جو منفی نکلا۔ اس پر پولیس نے اعلیٰ حکام کی مشاورت سے نوجوان کے خلاف ڈرانے دھمکانے اور سفاکانہ و غیرذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرنے کی دفعات لگا کر مقدمہ ایک مقامی عدالت میں پیش کر دیا۔ عدالت نے اس نوجوان کو بری کر دیا۔ لیکن سرکاری پراسیکوٹرز کو زیریں عدالتی جج کا فیصلہ پسند نہیں آیا اور وہ مغربی ہائی کورٹ میں اس کے خلاف اپیل لے کر چلے گئے۔
سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے پراسیکوٹرز کے موقف سے اتفاق کرلیا اور نوجوان کو مجرم ٹھہرا دیا۔ اب اپیل کرنے کی باری نوجوان کی تھی۔ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل لے کر عدالت عظمیٰ پہنچ گیا۔ عدالت عظمیٰ کو پراسیکوٹرزنے بتایا کہ اپنی اس حرکت پر نوجوان قانون کے مطابق پانچ ماہ تک قید کی سزا کا مستحق ہے جو اس کوہائی کورٹ دے چکی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے طرفین کے وکلا کے موقف سن کر اس کیس کی سماعت مکمل کرلی ہے۔ لیکن ماہرین کی آرا کا انتظار کیا جارہا ہے، جن سے عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا ہے کہ آیا کورونا وائرس چھینک کر یا کھانس کو دوسروں کو منتقل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ یاد رہے کہ بھارت میں کورونا وائرس سے ڈرانے کیلیے چھینکنے پر ایک قتل بھی ہوچکا ہے۔
’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے مطابق گزشتہ برس مارچ میں ممبئی میں دو دوست پرشانت اور جے ویر عرف گلو، لوڈو کھیل رہے تھے کہ اچانک کھیل کے دوران پرشانت کوچھینک آگئی اور اس نے دوست جے ویر کو ڈرانے کیلیے خود کوکورونا کا مریض قرار دیا۔ جس پر ناراض جے ویر نے اپنے پاس موجود پستول نکال کر پرشانت کو قتل کردیا۔
واضح رہے کہ کورونا منظر نامہ میں دنیا بھر میں کھانس اور چھینک کر لوگوں کو ڈرانے کے واقعات عام ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈینش نوجوان جیک چاہتا ہے کہ اس کی حرکت کو ’’مذاق‘‘ قرار دے کر بری کر دیا جائے۔ جبکہ سرکاری پراسیکوٹرز اپنا پورا زور اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ یہ نوجوان انتہائی بد تہذیب اور بد تمیز ہے اور پولیس اہلکاروں کے سامنے منہ کھول کر کھانسنے اور پھر ان کوڈرانے کیلیے’’کورونا‘‘ کا نعرہ لگانے والا یہ ملزم کم ازکم تین سے پانچ ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود رہے تاکہ اس کی قید کو دیکھ کر دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔
پراسکیوٹرز کا کہنا تھا کہ بات صرف کھانسی کی نہیں، بلکہ کھانس کر کورونا وائرس کے نام پر دوسروں کوخوف زدہ کرنے کے نا مناسب طرزعمل کی ہے۔ چاہے نوجوان نے یہ حرکت مذاق کے طور پر ہی کی ہو، لیکن قانون ایسا مذاق کرنے کی اجازت نہیں دیتا جو مارے خوف کے دوسرے کا خون خشک کر دے۔ پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ یہ خوف و ہراس پھیلانے کا منفی اور قابل سزا جرم ہے۔