فائل فوٹو
فائل فوٹو

اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یانہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پرایڈووکیٹ جنرل سندھ سلطان طالب الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ریفرنس میں اٹھایاگیاسوال ہی غیرمناسب ہے،اٹارنی جنرل نے کہا وہ اپنے سرپربوجھ نہیں اٹھاسکتے، ہارس ٹریڈنگ کاسب نے سناہے کسی کے پاس شواہد نہیں،اخباری خبروں اورویڈیوزتک ہی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ کیااوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوجائےگی؟۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسارکیاکہ کیاکبھی سینیٹ کاالیکشن چیلنج ہوا؟ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ عدالت کوسیاسی سوالات سے دوررہناچاہیے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئین بذات خودبھی ایک سیاسی دستاویزہے،آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ الیکشن کمیشن کاکام شفاف الیکشن کیلیے انتظامات کرناہے،پولنگ بوتھ میں نہ رشوت چلتی ہے نہ امیدوارسے کوئی رابطہ ہوتاہے۔

چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ کیاالیکشن رزلٹ کے بعدووٹ کاجائزہ لیاجاسکتاہے،ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ گنتی کے وقت ووٹ کودیکھاجاتاہے،گنتی کے وقت ووٹ ڈالنے والے کاعلم نہیں ہوتا،آئین ووٹ ڈالنے والے کی شناحت ظاہرکرنےکی اجازت نہیں دیتا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ کیااوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوجائےگی؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یانہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ آرٹیکل226انتخابات کوخفیہ رکھنے کاپابندکرتا ہے،آئین کے تحت ہونے والے انتخابات خفیہ ہوتے ہیں،کابینہ کی منظوری کے بعدوفاقی حکومت ترمیم چاہتی ہے،کابینہ کے پاس یہ معاملہ تھالیکن انہوں نے بوجھ خود نہیں اٹھایا،سارابوجھ انہوں نے عدالت پرڈال دیا،سپریم کورٹ کادائرہ ایڈوائزری ہے،چیف جسٹس گلزاراحمد نے استفسار کیاکہ وہ کیسے؟

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ عدالت صرف اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے سکتی ہے،اب بہت ساری باتیں ہورہی ہیں، بہت کچھ سناجارہاہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمیں ان باتوں سے غرض نہیں،ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ عدالت خودکوسیاست سے بالاتررکھے، الیکشن کمیشن کواپنی ذمہ داری پوری کرنے دیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ افسوس ہے پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن اپنے ہی معاہدے سے پھرگئے،دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں خفیہ طریقے کارکوختم کرنے کامعاہدہ کیاتھا،میثاق جمہوریت کی دستاویز اب بھی موجودہے،لیکن اس پردستخط کرنےوالی پارٹیاں اب اس پرعمل نہیں کررہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ ایک بات واضح ہے کہ ووٹ بنیادی ثبوت نہیں،پتہ چل جائے پارٹی کےخلاف ووٹ دیاتوپیسے لینے کا کیسے ثابت ہوگا،صرف ووٹ دیکھ لینے سے بدعنوانی ثابت نہیں ہوتی،عدالت صرف اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے سکتی ہے۔