سینیٹر مشاہداللہ خان ڈھائی ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے تاہم گزشتہ رات ان کی طبیعت بگڑگئی اور وہ خالق حقیقی سے جاملے
سینیٹر مشاہداللہ خان ڈھائی ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے تاہم گزشتہ رات ان کی طبیعت بگڑگئی اور وہ خالق حقیقی سے جاملے

مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ سپردخاک

پاکستان مسلم لیگ ن کے شعلہ بیاں رہنما سینیٹر مشاہد اللہ کی نماز جنازہ اسلام آباد میں ادا کردی گئی جس میں سیاسی رہنماؤں،کارکنوں اور بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہداللہ خان دسمبر 2020 میں شدید علیل ہوگئے تھے جنہیں اسلام آباد کے مقامی اسپتال میں داخل کروایا گیا۔
سینیٹر مشاہداللہ خان ڈھائی ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے تاہم گزشتہ رات ان کی طبیعت بگڑگئی اور وہ خالق حقیقی سے جاملے ۔
سینیٹر مشاہداللہ خان کی نمازجنازہ ادا کرنے کے بعد ان کی تدفین ایچ الیون کے قبرستان میں کی گئی۔
برجستگی اور بزلہ سنجی اور برمحل جملے کے بعد گونج دار قہقہے مارنے کے لیے مشہور زندہ دل اور باغ و بہار شخصیت کے مالک سینیٹر مشاہد اللہ خان کی نماز جنازہ میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وزیراعظم آزادکشمیر فاروق حیدر، مسلم لیگ ن کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، راجہ ظفرالحق ،اقبال ظفرجھگڑا، سردار ایاز صادق ، مصدق ملک، جے یوآئی کے رہنما مولانا عطاالرحمان، انجم عقیل خان، سردار مہتاب عباسی، پیپلزپارٹی کے رہنما مصطفٰی نواز کھوکر، پی ڈی ایم کے رہنما شاہ اویس نورانی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے مشاہداللہ خان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ مریم نواز نے کہا کہ سینیٹر مشاہد اللہ خان کے انتقال کی خبر سن کر ان کو دھچکا لگا، ان کا انتقال مسلم لیگ ن یاپارلیمنٹ نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بڑا نقصان ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ وہ میرے والد کی طرح میرے لیے محترم اور میرے استاد رہے۔
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب ،شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی افسوس کااظہارکیا ،صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی، مولانافضل الرحمان وزیراطلاعات شبلی فراز، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت سیاسی شخصیات نے سینیٹر مشاہداللہ کے انتقال پر تعزیت کااظہار کیا۔
مشاہد اللہ کا شمار مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں میں ہوتا تھا اور وہ مسلم لیگ کی سابق حکومت میں وفاقی وزیرِ ماحولیات رہے تاہم بعد میں ایک انٹرویو کے بعد انھیں وزارت سے ہٹا دیا گیا تھا۔