ساجدہ نے اپنے آشنا بھانجے عبداللہ کیساتھ مل کر ملتان بلایا اور قتل کردیا، گرفتاری کے بعد عدالت سے ضمانت حاصل کرلی پھر شادی کرکے کراچی میں رہائش اختیار کرلی
ساجدہ نے اپنے آشنا بھانجے عبداللہ کیساتھ مل کر ملتان بلایا اور قتل کردیا، گرفتاری کے بعد عدالت سے ضمانت حاصل کرلی پھر شادی کرکے کراچی میں رہائش اختیار کرلی

محنت کش کے قاتل بیوی اور بھانجا آزاد، بوڑھی ماں 9 ماہ سے انصاف کی منتظر

رپورٹ:شرجیل مدنی
کراچی مزدوری کے لیے آئے ہوئے شوہر کو اس کی بیوی نے ملتان شجاع آباد بلا کر اپنے آشنا بھانجے کے ساتھ مل کر قتل کردیا تھا۔
واقعہ کو 9ماہ گزر گئے لیکن مقتول کی بوڑھی ماں آج بھی انصاف کی منتظر ہے، مقتول کو قتل کرنے والے ملزمان ضمانت پر آزاد گھوم رہے ہیں جبکہ ملتان شجاع آباد کے تھانہ صدر کی پولیس تفتیش مکمل نہیں کر سکی۔ دونوں ملزمان کی ویڈیوز اور آڈیوز جس میں دونوں اپنے جرم کا اعتراف کر رہے ہیں مقتول کے اہلخانہ اور پولیس کے پاس موجود ہے۔
مقتول کراچی میں عرصہ دراز سے وال گرافی کا کام کرتا تھا اور پیسے کما کر اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا تھا جبکہ ملزمان میں شامل اس کی بیوی اور اس کا بھانجا ضنمانت حاصل کر کے کراچی شہر کے علاقے کورنگی کراسنگ میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق 9ماہ قبل یہ افسوس ناک اور شرمناک واقعہ شجاع آباد کے علاقے کھاکھی پنجانی میں پیش آیا جہاں بھانجے نے اپنی ممانی سے ناجائز تعلقات استوار کر کے اپنے ماموں محمد اظہر کو موت کی نیند سلا دیا۔ قتل کی واردات میں مقتول کی بیوہ ساجدہ نے اپنے آشنا عبد اللہ کا بھر پور ساتھ دیا۔

مقتول اظہر کی زندگی اور قتل کیے جانے کے بعد کی تصاویر
مقتول اظہر کی زندگی اور قتل کیے جانے کے بعد کی تصاویر

اس حوالے سے مقتول کے بھائی جنید نے امت کو بتایا کہ ملزمہ ساجدہ بی بی تین سال پہلے میرے بھانجے محمد عبد اللہ کے ساتھ گھر سے فرار ہو گئی تھی۔ تلاش کیا گیا تو دونوں کو ملتان سے پکڑ لیا گیا۔ بعد ازاں قریبی رشتے داری کی وجہ سے ملزمہ ساجدہ کا نکاح میرے بھائی مقتول محمد اظہر سے کر دیا گیا جس سے ساجدہ کا ایک بیٹا پیدا ہوا جو انتقال کر گیا بعد ازاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کی عمر دو سال ہے۔

قاتل عبد اللہ
قاتل عبد اللہ

مقتول محمد اظہر کراچی میں محنت مزدوری کرتا تھا جبکہ بیوی یہاں اکیلی رہتی تھی۔ عبد اللہ کا نانی کے گھر آناجانا تھا اسی دوران ساجدہ نے دوبارہ عبد اللہ سے تعلقات استوار کر لئے اور دونوں نے منصوبہ بنایا کہ کسی طرح اظہر کو راستے سے ہٹایا جائے تاکہ ان کے ملنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
منصوبہ بندی میں طے پایا کہ عبد اللہ مقتول محمد اظہر کو نشے کی گولی اور سرنج دے گا اور ساجدہ باقی کام پورا کرے گی۔ پھر اظہر کے مرنے کے بعد شادی کرلیں گے ملزمہ ساجدہ نے اپنے والد ہاشم علی سے کہا کہ” اَک “ کا دودھ چاہئے جسے ایک دوائی میں استعمال کرنا ہے۔ باپ نے کھیتوں سے”اَک“ کی جڑی بو ٹی جو دیہات میں خود رو پودا ہے اور عام ہے اس کا عرق”دودھ“ لا کر اپنی بیٹی ساجدہ کو دے دی۔ ساجدہ نے 8 مئی 2020کو رات 10بجے دودھ میں 5 نشے کی گولیاں ملا کر شوہر کو پلا دیں جس سے وہ بیہوش ہو کر گہری نیند سو گیا۔ اسی دوران اس نے سرنج میں ”اَک“ کا دودھ بھر کر بازو میں انجکشن لگا دیا۔ صبح جب محمد اظہر بیدار ہوا تو نیم بیہوشی کی حالت میں تھا اور الٹیاں کرنے کی کیفیت شروع ہو گئی لیکن الٹی نہیں آئی۔ پورا دن محمد اظہر بیماری کے عالم میں گھر میں گرتا پڑتا رہا مگر کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ بالآخر رات 10 بجے وہ اسی حالت کے دوران دم توڑ گیا جسے طبعی موت قرار دے کر اگلے دن تدفین کر دی گئی۔
دوران تدفین میت کا رنگ کالا پڑنے پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور میت والے گھر میں موجود عور توں نے چہ میگوئیاں شروع کر دیں۔ جس پر مردوں نے بھی پوچھ گچھ شر وع کر دی۔

شریک قاتل ملزمہ ساجدہ
شریک قاتل ملزمہ ساجدہ

سوالات جب سختی سے کئے گئے تو ساجدہ نے اپنی زبان کھول دی اور کہا کہ ہاں میں نے ایسا کیا ہے، میں عبد اللہ سے محبت کرتی ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں جس پر پولیس کو اطلاع کر دی گئی یوں تھانہ صدر شجاع آباد کے ایس ایچ او نے نفری سمیت موقع پر پہنچ کر ساجدہ اور اس کے آشنا عبد اللہ کو گرفتار کر لیا۔
بعد ازاں دونوں ملزمان نے ایس ایچ او اور سابقہ اے ایس پی شجاع آباد سنگھار ملک کے روبرو اقرار جرم بھی کر لیا۔
اس حوالے سے مقتول محمد اظہر کے بھائی اختر حسین نے با ضابطہ ایس ایچ او تھانہ صدر شجاع آباد کو اندراج مقدمہ کیلئے درخواست دی جس پر پہلے تو پولیس نے اندراج مقدمہ کی حامی بھر لی بعد ازاں صرف دفعہ 174کی کارروائی کر کے معاملے کو نمٹا دیا۔
مقتول کے بھائی اختر حسین نے پولیس کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر عدالت میں پوسٹ مارٹم کی درخواست گزاری اور اندراج مقدمہ کی درخواست بھی دی۔ اسی دوران اختر حسین نے بمعہ اہل و عیال تھانہ سٹی شجاع آباد کے سامنے مقدمہ کیلئے پر امن احتجاج بھی کیا لیکن پولیس نے مظاہرین کو زبردستی منتشر کر کے دفعہ 144 کے تحت 21خواتین سمیت 53ا فراد پر مقدمہ درج کر دیا۔
اس صورتحال میں مدعی کا پورا خاندان پریشان اور بھائی غم سے نڈھال ہیں۔ نا حق قتل کے ملزمان ساجدہ اور عبد اللہ دونوں پولیس تحویل میں تھے لیکن اس وقت ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوا۔
مقتول کے بھائی جنید کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں کیس چل رہا ہے ہم ہر پیشی پر پیش ہوتے ہیں پر دونوں ملزمان پیش نہیں ہوتے ملزمہ ساجدہ اور ملزم عبداللہ کے گھروالوں نے ملتان شجاع آباد کے تھانہ صدر کی پولیس کو خرید لیا ہے اور پولیس ملزمان کو سزا دلوانے کے بجائے مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے اور ابھی تک پولیس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی پیش نہیں کی ہے۔
مذکورہ واقعہ گزشتہ رمضان کے پہلے روزے کو پیش آیا تھا۔اس حوالے سے سابقہ اے ایس پی ملتان شجاع آباد سنگھار ملک سے متعدد بار رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔