نبی کریمؐ ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے کہ شب کو ایک جگہ قیام فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ آج شب کو حفاظت اور چوکیداری کون کرے گا؟
ایک مہاجراورایک انصاری حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت عباد بن بشرؓ نے عرض کیا کہ ہم دونوں کریں گے۔
حضور نبی کریمؐ نے ایک پہاڑی جہاں سے دشمن کے آنے کا راستہ ہوسکتا تھا، بتا دی کہ اس پر دونوں قیام کرو۔ دونوں حضرات وہاں تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر انصاری نے مہاجر سے کہا کہ رات کو دو حصوں پر تقسیم کر لیتے ہیں اور ایک حصہ میں آپ سو رہیں اور میں جاگتا ہوں، دوسرے حصے میں آپ جاگیں اور میں سو رہوں گا، کیونکہ دونوں کے تمام رات جاگنے میں یہ بھی احتمال ہے کہ کسی وقت نیند کا غلبہ ہو جائے اور دونوں کی آنکھ لگ جائے۔ اگر کوئی خطرہ جاگنے والے کو محسوس ہو تو اپنے ساتھی کو جگالے۔
رات کا پہلا حصہ انصاری کے جاگنے کا قرار پایا اور مہاجر سوگئے۔ انصاری نے نماز کی نیت باندھ لی۔ دشمن کی جانب سے ایک شخص آیا اور دور سے کھڑے ہوئے شخص کو دیکھ کر تیر مارا اور جب کوئی حرکت نہ ہوئی تو دوسرا اور پھر اسی طرح تیسرا تیر مارا اور ہر تیر ان کے بدن میں گھستا رہا اور یہ ہاتھ سے اس کو بدن سے نکالتے رہے اور پھینکتے رہے۔ اس کے بعد اطمینان سے رکوع اور سجدہ کیا، نماز پوری کر کے اپنے ساتھی کو جگا دیا۔ دشمن ایک کی جگہ دو کو دیکھ کر فرار ہوگیا کہ نہ معلوم کتنے ساتھی ہوں، مگر ساتھی نے جب اٹھ کر دیکھا تو انصاری کے بدن سے تین جگہ سے خون بہہ رہا ہے۔ مہاجر نے کہا۔
’’تم نے مجھے شروع ہی میں کیوں نہ جگالیا؟‘‘
انصاری نے فرمایا: ’’میں نے سورئہ کہف شروع کر رکھی تھی میرا دل نہ چاہا کہ اسے ختم کرنے سے پہلے رکوع کروں۔ اب بھی مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ میں بار بار تیر لگنے سے مرجاؤں اور یہ جو حفاظت کی خدمت نبی کریمؐ نے میرے سپرد کر رکھی ہے، وہ فوت ہو جائے، اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا تو میں مرجاتا، مگر سورہ ختم کرنے سے پہلے رکوع نہ کرتا۔‘‘
یہ تھی ان حضرات کی نماز اوراس کا شوق کہ تیر کھا کھا کر نماز میں مزے لوٹ رہے ہیں۔